سائنس دانوں نے 400 سال قدیم ’ویمپائر‘ کا چہرہ دوبارہ تخلیق کر لیا

400 سال قبل دفن کی گئی نوجوان خاتون ان درجنوں پولش خواتین میں سے ایک تھیں جن پر ان کے پڑوسیوں نے ’ویمپائر‘ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔

چار سو سال پہلے ویمپائر ہونے کے الزام کا سامنا کرنے والی ایک خاتون کا چہرہ دوبارہ تخلیق کر لیا (آسکر نیلسن)

ویمپائر ہونے کے الزام کا سامنا کرنے والی ایک خاتون کو ’موت سے واپس‘ لایا گیا ہے۔

ڈی این اے، تھری ڈی پرنٹنگ اور ماڈلنگ کلے کا استعمال کرتے ہوئے سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے زوسیا نامی خاتون کے 400 سال پرانے چہرے کو دوبارہ بنایا اور ان سے منسلک مافوق الفطرت عقائد کی انسانی کہانی کو دنیا کے سامنے لایا گیا ہے۔

زوسیا کو پاؤں پر تالہ اور گردن میں لوہے کی درانتی کے ساتھ دفن کیا گیا تھا تاکہ وہ کبھی واپس نہ آ سکے۔

شمالی پولینڈ کے شہر پائین میں ایک بے نشان قبرستان میں دفن کی گئی یہ نوجوان خاتون ان درجنوں خواتین میں سے ایک تھی جن پر ان کے پڑوسیوں نے ’ویمپائر‘ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔

سویڈش ماہر آثار قدیمہ آسکر نیلسن نے کہا کہ ’یہ ایک طرح سے ستم ظریفی تھی۔ یہ لوگ اسے دفن کر رہے تھے، انہوں نے اسے دنیا میں واپس آنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن اب ہم نے اسے دوبارہ زندہ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔‘

نیلسن نے کہا کہ وہ زوسیا کو ’ایک عام انسان کے طور پر واپس لانا چاہتے ہیں، نہ کہ اس عفریت کی طرح جسے سمجھ کر انہیں دفن کیا گیا تھا۔‘

اس خاتون کا نام زوسیا مقامی لوگوں نے اس وقت رکھا تھا جب 2022 میں ٹورن کی نکولس کوپرنیکس یونیورسٹی کے ماہرین آثار قدیمہ کی ایک ٹیم نے ان کے ڈھانچے کو اس قبر سے دریافت کیا تھا۔

نیلسن نے کہا کہ 18 سے 20 سال کی عمر میں ان کی موت ہوئی تھی۔ زوسیا کی کھوپڑی کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک ایسی بیماری میں مبتلا تھی جس کی وجہ سے انہیں بے ہوشی اور شدید سر درد کے ساتھ ساتھ دماغی صحت کے ممکنہ مسائل کا بھی سامنا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیکولاس کوپرنیکس ٹیم کے مطابق درانتی، تالے اور قبر کے مقام پر پائی جانے والی لکڑی کی کچھ خاص قسمیں اس وقت عفریت سے بچانے والی جادوئی خصوصیات کے حامل اشیا تصور کی جاتی تھیں۔

زوسیا کی قبر نمبر 75 شمالی شہر بائیڈگوسز کے باہر پائین کے غیر نشان زدہ قبرستان میں پائی گئی تھی۔ اس مقام سے ملنے والی دیگر لاشوں میں ایک ’ویمپائر‘ بچہ بھی شامل تھا جس کا اوندھے منہ دفن کیا گیا تھا اور اسی طرح اس کے پاؤں کو بھی تالے سے باندھا گیا تھا۔

زوسیا کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں لیکن نیلسن اور پائین کی ٹیم کا کہنا ہے کہ انہیں ایسی اشیا کے ساتھ دفن کیا گیا تھا جو ان کے ایک امیر، ممکنہ طور پر عزت دار خاندان سے تعلق ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

17 ویں صدی کا یورپ جس میں وہ رہتی تھی جنگ کی وجہ سے تباہ ہو گیا تھا۔ نیلسن کے مطابق اس دور میں خوف کا ماحول پیدا ہوا جس میں مافوق الفطرت بلاؤں پر یقین کرنا عام بات بن گئی تھی۔

نیلسن کی جانب سے ان کے چہرے کی دوبارہ تخلیق ​​کا آغاز خاتون کی کھوپڑی کی تھری ڈی پرنٹڈ نقل تیار کرنے کے ساتھ ہوا جس کے بعد انہوں نے آہستہ آہستہ پلاسٹائن کلے (پلاسٹ کے گارے) کی تہوں سے مسلز کے اوپر مسلز بنا کر ان کی حقیقی زندگی جیسا چہرہ بنایا۔

انہوں نے چہرے کے خدوخال کا اندازہ لگانے کے لیے ان کئ جنس، عمر، نسل اور اندازاً وزن کے بارے میں معلومات کے ساتھ ہڈیوں کی ساخت کا بھی استعمال کیا۔

نیلسن کا کہنا ہے کہ ’ایک چہرے کو زندگی میں واپس آتے دیکھنا جذباتی ہوتا ہے خاص طور پر جب آپ کو اس نوجوان لڑکی کی کہانی معلوم ہو۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ