ایک ایسے ملک میں جہاں ضروریات زندگی کے اخراجات میں اضافہ، بھوک کی لہر کا سامنا اور خاندانوں کی معاشی حالت بگڑ رہی ہو، آپ سوچیں گے کہ وہاں کھانے کے قابل خوراک کبھی ضائع نہیں ہوتی ہو گی لیکن اس سب کے باوجود بھی برطانیہ ایک ایسی قوم ہے جو ہر سال ایک کروڑ سات لاکھ ٹن خوراک کوڑے میں پھینک دیتی ہے۔ ضائع ہونے والی یہ اتنی زیادہ مقدار ہے کہ یہ ویمبلے سٹیڈیم کو 10 بار بھرنے کے لیے کافی ہے۔
یہ صرف ایک اخلاقی ناکامی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ماحولیاتی تباہی بھی ہے کیوں کہ ہم اتنی خوراک پھینک رہے ہیں جو عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا تقریباً آٹھ سے 10 فیصد حصہ بنتی ہے اور عالمی حدت میں اضافے کی وجہ بھی۔
لیکن جو چیز اس صورت حال کو واقعی تکلیف دہ بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اس پھینکی گئی خوراک کا ایک بڑا حصہ یعنی تقریباً 40 فیصد بالکل محفوظ اور کھانے کے قابل ہوتا ہے۔
ہم صرف گھروں سے بچ جانے والے کھانے کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ کھیتوں، سپر مارکیٹوں اور فوڈ سپلائی چینز کی جانب سے ضائع کی گئی خوراک کی بات کر رہے ہیں۔
فروری میں سابق وزیر اعظم رشی سونک نے بالآخر اس مسئلے کے پیمانے کو تسلیم کرتے ہوئے ڈیڑھ کروڑ پاؤنڈ مالیت کا فارم گیٹ فوڈ ویسٹ فنڈ متعارف کرایا تھا جو دا فیلکس پروجیکٹ، فیئر شیئر اور دیگر کھانے کی دوبارہ تقسیم کرنے والے خیراتی اداروں کی سخت محنت کے بعد ایک جیت ہے۔
یہ رقم برطانیہ کے کھیتوں میں ہزاروں ٹن خوراک کو ضائع ہونے سے روکنے کے لیے مختص کی گئی تھی جس سے وہ خوراک جسے اگانے پر کسانوں کی محنت صرف ہوئی تھی اس سے بھوکے خاندانوں کی پرورش ہونی چاہیے تھی لیکن سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی سیاسی کھیل شروع ہو گیا۔
انتخابات کے قریب آنے کے ساتھ اس فنڈ کو ملتوی کر دیا گیا اور اب وزارت خزانہ کے آئندہ بجٹ میں فیصلے کے انتظار میں لٹکا ہوا ہے۔
خوراک کے اس ضیاع کی مضحکہ خیزی حیران کن ہے خاص طور پر جب آپ اس کی انسانی قیمت پر غور کریں۔
دی ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کی 2022 کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ برطانیہ کے کھیتوں سے نکلنے سے پہلے ہی تقریباً 30 لاکھ ٹن قابل استعمال خوراک ضائع ہو جاتی ہے۔
کسانوں کے لیے یہ آخری توہین ہے کیوں کہ کئی مہینے فصلوں کی پرورش کے بعد، وہ اچھی خوراک کے لیے دوبارہ زمین میں ہل لگانے پر مجبور ہوتے ہیں یا اسے انیروبک ڈائیجیشن پراسیس کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ اس کو دوبارہ تقسیم کرنے کے بنیادی ڈھانچے کے لیے فنڈز دستیاب نہیں ہیں۔
دریں اثنا ملک بھر میں فوڈ سکیورٹی کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ہم نے حال ہی میں لندن میں ایک سروے کیا اور پتہ چلا کہ کام کرنے والے خاندانوں میں سے نصف سے زیادہ نے خوراک کے حصول کے لیے پچھلے سال فوڈ بینکس کا رخ کیا تھا۔
ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ 82 ہزار گھرانوں کے پاس کھانے پر خرچ کرنے کے لیے یومیہ تین پاؤنڈ سے بھی کم آمدنی ہے، یہ اتنی رقم جو ہم میں سے بہت سے لوگ صرف ایک کپ کافی پر اڑا دیتے ہیں۔ پورے برطانیہ میں ٹرسل ٹرسٹ نے گذشتہ سال چونکا دینے والے 31 لاکھ فوڈ پارسل تقسیم کیے جو ایک سنگین نئے ریکارڈ کی نشاندہی کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دا فیلکس پروجیکٹ کے سی ای او کے طور پر مجھے لندن کے سب سے بڑے فوڈ ری ڈسٹری بیوشن چیریٹی کی قیادت کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ پچھلے سال ہم نے 32 ملین میلز کے برابر کھانا فراہم کرنے کے لیے خوراک بچائی اور اس سال ہم اس سے بھی زیادہ بچی ہوئی خوراک تقسیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
لیکن یہ صرف بنیادی ضرورت کو ہی پورا کر رہا ہے۔ کھانے کی طلب آسمان کو چھو رہی ہے اور ضروری مدد کے بغیر بہت سے لوگ بھوکے مر جائیں گے جب کہ قابل استعمال کھانا ضائع ہو جائے گا۔
یہ ڈیڑھ کروڑ پاؤنڈ کا فنڈ، اگر جاری کیا جاتا ہے تو اس سے تقریباً 25 ہزار ٹن خوراک بچائی جا سکتی ہے جو چھ کروڑ کھانوں کے لیے کافی ہے اور جس کی مارکیٹ ویلیو 10 کروڑ پاؤنڈ ہے۔ اتنے بڑے فائدے کے لیے یہ ایک چھوٹی سی قیمت ہے۔
وزیر اعظم کیر سٹارمر اور ماحولیات کے سکریٹری سٹیو ریڈ جیسے سیاست دان ایک سرکلر اکانومی کی تعمیر، فضلے کو کم کرنے اور معاملات کو بہتر کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں، یہ ٹھیک ہے، یہی ان کے لیے موقع ہے۔
اس فنڈ کی لاگت برطانیہ کے فارمنگ بجٹ کے تناظر میں ایک غلطی ہے۔ لیکن اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ یہ بہت زیادہ ہیں۔ یہ صرف ماحولیاتی پائیداری کے بارے میں نہیں ہے، یہ بھوکے بچوں کو کھانا کھلانے، مشکلات سے دوچار خاندانوں کی مدد اور جو صحیح ہے وہ کرنے کے بارے میں ہے۔
ہمارے جیسے امیر ملک میں لاکھوں افراد کے بھوکے رہنے کے باوجود کھانا ضائع کرنا ایک بحران سے بڑھ کر ہے۔ یہ ایک سکینڈل ہے جسے ہم ٹھیک کر سکتے ہیں اور ہمیں اسے ٹھیک کرنا بھی چاہیے۔ آئیے امید کرتے ہیں کہ ہمارے قائدین میں اس پر عمل کرنے کی ہمت ہوگی اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
نوٹ: شارلٹ ہل لندن میں قائم فوڈ ری ڈسٹری بیوشن چیریٹی ’دا فیلکس پروجیکٹ‘ کی سی ای او ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent