ایک زمانہ تھا جب بچے کہانیاں سن کر اور پڑھ کر اخلاقی صلاحیتوں پر کمال حاصل کرتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کہانیاں بچوں کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتی تھیں تو یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہے۔
بات ہو رہی ہے 90 کی دہائی کی، جب مائیں اپنے بچوں کو ادبی رسالے لا کر دیا کرتی تھیں اور بچے اپنے فرصت کے لمحات میں کہانیاں پڑھتے تھے۔
بچوں کو کہانیاں سنانے کا سلسلہ تربیت کا وہ باقاعدہ اور غیر نصابی طریقہ ہے جو انسانی فطرت اور جذبات سے قریب تر ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت سے شروع ہو جاتا ہے، جب ایک بچہ ہماری بات سن کر سمجھنے لگتا ہے۔
تاہم، ماضی میں بچوں کے ادب کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں نونہال، بچوں کا اسلام، پھول، تعلیم و تربیت، ٹوٹ بٹوٹ، چاند ستارے، جنگل منگل، سمیت دیگر رسالے شائع ہوتے تھے جن میں بچوں کے ادب سے جڑی کہانیاں سمیت فن سے جڑی سرگرمیاں بھی شامل ہوتی تھیں۔ یہ رسالے ابھی بھی شائع ہوتے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے دور کے بچوں کا فنون لطیفہ کیا ہے؟ کیا وہ جدید دور میں کہانیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں؟
اسی حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ادیب علی حسن ساجد کا خصوصی انٹرویو کیا جو 1978 سے بچوں کے ادب پر کہانیاں لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی پہلی کہانی اس وقت لکھی جب وہ خود چھٹی جماعت میں تھے۔
علی حسن ساجد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’کتاب قوم کو تہذیب و ثقافت، دینی و معاشی اور سائنسی علوم سے روشناس کروانے کے ساتھ ساتھ انسان کی بہترین دوست بھی ہے۔ اگرچہ آج ٹی وی، انٹرنیٹ، موبائل اور سوشل میڈیا نے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کر لیا ہے لیکن کتاب کی اہمیت اپنی جگہ قائم ہے۔ آج نئی نسل میں کتب بینی کا رجحان خاصا کم ہو رہا ہے، بچوں کو مطالعے کی طرف راغب کرنا کٹھن کام بن چکا ہے، کیونکہ اچھی کتابیں شعور کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بہت سے فضول مشغلوں سے بھی بچاتی ہیں۔ چونکہ دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے انقلابات نے بچوں کو جرائد اور مطالعے سے کہیں نہ کہیں دور کر دیا ہے، اسی لیے ہم نے ادب کی دنیا سماجی ویب سائٹ پر بنا لی ہے جہاں ’جنگل منگل‘ کے نام سے میگزین اپلوڈ کرتے ہیں جسے پڑھا جاتا ہے۔ مطلب اب بچوں کا ادب سوشل میڈیا پر چلا گیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ادیب علی حسن ساجد کہتے ہیں کہ وہ کم عمری سے کہانیاں لکھ رہے ہیں کیونکہ وہ بچپن میں سبق آموز کہانی سن کر ہی سویا کرتے تھے جس سے ان میں دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔ اور ایک دن انہوں نے بھی کہانی لکھ ڈالی۔ پہلی کہانی ’معصوم‘ کے عنوان سے لکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جیسے جیسے میری کہانیاں شائع ہونے لگیں، میری حوصلہ افزائی ہونے لگی۔ اب اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں گھر کی خواتین کی جانب سے بچوں کی تربیت کے لیے کہانی سنانے کا سلسلہ کس قدر مضبوط تھا۔ آج کے والدین نے تو شاید ’الف لیلہ‘ کا نام بھی بھول چکے ہوں گے۔‘
ادیب علی حسن ساجد کے بقول: ’پاکستان میں مطالعہ اور کتابوں کا رجحان کم ہوا ہے لیکن کتاب کا سفر کبھی نہیں رک سکتا۔ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کا جائزہ لیں تو وہاں ابھی بھی لوگ ٹرین میں کتابیں لے کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے لوگ بنیادی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جو اب سنگین ہو چکے ہیں۔ ایسے میں بچوں میں ادب کے ذریعے اخلاقی اقدار کیسے بیدار ہوگا؟ جب ہمارے معاشرے کے لوگ مسائل میں گھر کر ادبی دنیا سے غافل ہیں تو بچہ پھر موبائل میں ہی اپنا وقت صرف کرے گا۔‘
ادیب علی حسن ساجد نے آخر میں یہی پیغام عام کیا کہ ’اب جدت کے ساتھ ادب پر کہانیاں لکھ رہا ہوں۔ کوشش ہے کہ مستقبل کے معماروں کے کردار پر کام جاری رکھوں۔ دنیا تبدیل ہوتی رہتی ہے، اس کے رجحانات تبدیل ہوتے رہیں گے۔ ہمیں جدت کا ساتھ دینا ہے۔ جدت کی راہ میں رکاوٹ بننے سے بہتر ہے کہ ٹیکنالوجی کو سمجھتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھیں۔ اسی طرح بچوں میں کتب بینی کا رجحان پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔‘