لاہور میں جرائم کی شرح تین سال کی کم ترین سطح پر: پولیس

پولیس آپریشن ونگ نے پولیس ہیلپ لائن 15 کے کال ڈیٹا کی تقابلی رپورٹ سے دعویٰ کیا ہے کہ نومبر 2024 مسلسل چوتھا مہینہ ہے، جب جرائم کی شرح میں کمی کا ٹرینڈ جاری ہے۔

پانچ اگست، 2024 کو لاہور میں پولیس اہلکار نظر آ رہے ہیں (اے ایف پی)

 پنجاب پولیس کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور میں جرائم کی شرح تین سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔

پولیس آپریشن ونگ نے پولیس ہیلپ لائن 15 کے کال ڈیٹا کی تقابلی رپورٹ سے دعویٰ کیا ہے کہ رواں ماہ نومبر 2024 مسلسل چوتھا مہینہ ہے، جب جرائم کی شرح میں کمی کا ٹرینڈ جاری ہے۔

رپورٹ میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ مختلف نوعیت کے جرائم کی شرح میں مجموعی طور پر غیر معمولی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق گذشتہ ماہ (اکتوبر) کے دوران پنجاب کے سب سے بڑے شہر سے ایک بھی گاڑی گن پوائنٹ پر نہیں چھینی گئی، جب کہ گذشتہ سال اسی مہینے کے دوران لاہور میں کار چوری کی 50 اور اکتوبر 2024 میں صرف 24 وارداتیں ہوئیں۔ 

لاہور میں ہونے والی کار چوری کی وارداتوں میں گذشتہ سال اکتوبر کے مقابلے میں اس ماہ 77 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔

اسی طرح گن پوائنٹ پر موٹر سائیکل چھینے جانے کی وارداتوں میں 62 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ گذشتہ سال اکتوبر میں گن پوائنٹ پر 131 جبکہ اکتوبر 2024 میں 50 موٹر سائیکلیں چھینی گئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران کے مطابق گذشتہ تین، چار ماہ سے جرائم کی شرح میں مسلسل کمی لائی گئی ہے اور پولیس نے مختلف حکمت عملیاں تیار کی ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’ہم کرائم ہاٹ سپاٹ ایریاز اور مجرموں کی جدید ٹیکنالوجی سے نشاندہی کر رہے ہیں، جس سے جرائم پیشہ افراد کو وراداتیں کرنے سے روک کر شہریوں کو محفوظ بنایا جا رہا ہے۔‘

سابق آئی جی پنجاب پولیس چوہدری محمد یعقوب کے مطابق: ’جرائم کی شرح میں کمی یا اضافے کا تعلق پولیس کی کارکردگی سے زیادہ ملک کی معاشی صورت حال، شرح خواندگی اور آبادی پر قابو پانے سے ہوتا ہے۔ البتہ سکیورٹی اداروں کی مؤثر حکمت عملی سے جرائم کو کنٹرول ضرور کیا جا سکتا ہے لیکن یہ مستقل حل نہیں ہو سکتا۔‘

جرائم میں کمی کی ممکنہ وجوہات

ڈی آئی جی فیصل کامران نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’جرائم کو قابو کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ ایک تو جن مقامات پر جرائم کی شرح زیادہ ہے وہاں ہاٹ سپاٹ پوائنٹ بنا کر ناکے لگائے گئے ہیں اور شہر میں پولیس پیٹرولنگ میں اضافہ کیا گیا ہے۔

’شہریوں کی جانب سے کسی بھی وردات کے دوران بروقت پولیس کو اطلاع دینے سے بھی کئی واقعات روکے گئے ہیں۔ پولیس اہلکاروں نے دن رات ڈیوٹی کے دوران جان پر کھیل کر جرم روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس معاملے میں ہیومن انٹیلی جنس میں اضافہ اور افسران کی میرٹ پر تعیناتی نے کلیدی کردار ادا کیا۔‘

اس حوالے سے سابق آئی جی پنجاب چوہدری محمد یعقوب کہتے ہیں کہ ’جرائم پر قابو پانے کے لیے سب سے اہم پولیس آرڈر کے مطابق افسران اور ایس ایچ اوز کی تین سال کے لیے تعیناتی برقرار رکھنا ضروری ہے۔ بار بار تبادلوں سے کوئی بھی افسر اپنی بہتر کارکردگی کو یقینی نہیں بنا سکتا کیونکہ یہ کوئی آسان کام نہیں کہ علاقے میں جرائم کے طریقوں اور جرائم پیشہ افراد کو فوری جانچنا ممکن ہو۔ اگر کوئی افسر مسلسل تعینات رہے گا تو اسے اپنے ماتحت اہلکاروں اور اطراف کا ماحول جاننے میں آسانی ہوتی ہے اور وہ بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے۔‘

سابق آئی جی نے کہا کہ ’جس مقام پر کرائم کی شرح زیادہ ہو وہاں پولیس گشت یا ہاٹ سپاٹ قرار دے کر ناکہ بندی کی جاتی ہے تاکہ وارداتیں کم ہو سکیں، لیکن اس سے ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ جرائم کسی اور مقام پر منتقل ہو سکتے ہیں، اس لیے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر مربوط حکمت عملی بنانا ضروری ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پولیس میں قابل افسران کی تعیناتیوں کے ساتھ اہم ترین معاملہ یہ ہوتا ہے کہ عادی مجرمان سے نمٹنا ایک چیلنج بن جاتا ہے۔ جب پولیس جرائم پیشہ افراد کو پکڑتی ہے تو انہیں عدالتوں سے ریلیف مل جاتا ہے، لہذا وہ دوبارہ جرائم شروع کر دیتے ہیں، اس لیے پولیس کو ماورائے عدالت عادی مجرموں کو ٹھکانے لگانا پڑتا ہے۔ کئی بار گرفتاری کے دوران مزاحمت پر بھی پولیس مقابلوں میں کئی مجرمان کو مارنا پڑتا ہے۔ جرائم پیشہ افراد کی اس طرح صفائی اگرچہ خلاف قانون ہے لیکن جرائم روکنے کے لیے مجرموں کا خاتمہ ضروری بھی ہے۔‘

جرائم روکنے کا مستقل حل

اس سوال کے جواب میں سابق آئی جی پنجاب نے کہا کہ ’جن ممالک میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں ایسا نہیں کہ پولیس کی کارکردگی بہت اچھی ہے یا پولیس نے کرائم کنٹرول کر لیا ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ وہاں معاشی مسائل نہیں ہیں، ہر شہری کو روزگار، تعلیم اور صحت کے وافر مواقع موجود ہیں۔

’جب خوشحالی ہوتی ہے تو جرائم بھی کم ہوتے ہیں۔ جن ممالک یا معاشروں میں غربت، افلاس، ناخواندگی، بے ہنگم آبادی اور لاشعوری مجبوریاں ہوں گی وہاں جرائم کو مستقل قابو نہیں کیا جا سکتا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان جیسے ممالک میں بنیادی مسائل اور معاشی بدحالی کی وجہ سے جرائم جنم لیتے ہیں۔ چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث بیشتر مجرمان مجبوراً نکلتے ہیں، حتیٰ کہ بیوی بچوں یا والدین کے علاج کی رقم نہ ہونے پر بھی کئی مجرم اس راہ پر چلتے دکھائے دیے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے بڑی دو وجوہات میں تعلیم اور روزگار شامل ہیں۔ جہاں یہ مسئلے ہیں، وہیں زیادہ کرائم ہیں، لہذا جب تک ہماری معاشی اور شعوری صورت حال بہتر نہیں ہو گی جرائم پر مکمل اور مستقل قابو نہیں پایا جاسکتا۔ پولیس کے ساتھ ہمارے حکمرانوں اور شہریوں کو مل کر اپنے معاشرے کو پر امن بنانا ہو گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان