ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر منتخب ہونا اس بات کی ضمانت ہے کہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی میں تبدیلی آئے گی۔
مگر اصل سوال یہ ہے، اور ٹرمپ کے لیے ایک ابتدائی بڑا امتحان یہ ہے کہ کیا یہ تبدیلی معنی خیز ہوگی؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اس خطے کی جغرافیائی سیاست ان کے دور کے مقابلے میں نمایاں طور پر مختلف ہو چکی ہے اور شاید حلف برداری کے دن تک مزید بدل سکتی ہے؟
ابتدائی علامات حوصلہ افزا نہیں ہیں کہ ٹرمپ کو نئے سٹریٹیجک مواقع یا واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کو درپیش خطرات کا اندازہ ہے۔
20 جنوری کو (جب ٹرمپ حلف اٹھائیں گے) اس خطے کا مرکزی بحران اور توجہ کا مرکز ایران کی ’رنگ آف فائر‘ حکمت عملی ہو گی جو اسرائیل کے خلاف ہے۔ اس وقت اسرائیل منظم طریقے سے حماس کی سیاسی قیادت، فوجی صلاحیتوں اور زیرزمین قلعے ختم کر رہا ہے۔ اسی طرح اسرائیل لبنان میں حزب اللہ کو بھی ختم کر رہا ہے۔ اس کی قیادت کو مارا جا چکا ہے، اس کے بڑے میزائل ذخائر کو بتدریج تباہ کیا جا رہا ہے، اور اس کے پناہ کے ٹھکانے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔
اسرائیل حماس، حزب اللہ اور مغربی کنارے کے عسکریت پسندوں کو کمزور کرتا رہے گا اور بالآخر ایران کی طاقت کے ان ستونوں کو ختم کر دے گا۔ حتیٰ کہ صدر بائیڈن کی ٹیم نے بھی قطر سے کہا ہے کہ وہ حماس کے رہنماؤں کو ملک بدر کر دے۔
بدقسمتی سے یمن کے حوثی، جو ابھی تک نہر سویز- بحیرہ احمر کے راستے کو روکے ہوئے ہیں، انہیں اب تک صرف محدود پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اسی طرح ایران کی شامی و عراقی شیعہ ملیشیا پروکسیز کو بھی معمولی نقصان ہوا ہے۔
ایران نے بالآخر 26 اکتوبر کو اسرائیل کی ناپ تول کر کی گئی جوابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا، جس میں اسرائیل نے روسی ساختہ ایس-300 ایئر ڈیفنس سسٹم کو تباہ کر دیا اور میزائل بنانے والی سہولیات کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس کے باوجود ایران کے براہ راست نقصانات کم ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے دباؤ اور امریکی انتخابات کے پیش نظر اسرائیل نے تہران کے جوہری پروگرام یا تیل کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ نہیں بنایا۔
سب سے بڑا نامعلوم عنصر یہ ہے کہ 20 جنوری سے پہلے اسرائیل مزید بڑے اقدامات کرے گا یا نہیں۔ 26 اکتوبر کے اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد تہران مسلسل یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ اس کا بدلہ لے گا، لیکن یہ دعوے پورے نہیں ہوئے۔
ایرانی مذہبی قیادت اسرائیلی فوجی صلاحیتوں سے اتنی خوفزدہ ہے کہ وہ امید کر رہے ہیں کہ دنیا کی توجہ ہٹ جائے اور ایران اسرائیل کے خطرے کے سامنے جھک جائے۔
اگر ایران جواب دینے کی ہمت کرتا ہے، تو اس بار یہ تقریباً یقینی ہے کہ اسرائیل کی جوابی کارروائی تباہ کن ہو گی، خاص طور پر اگر ایسا امریکی صدارتی منتقلی کے دوران ہوا۔ اسرائیلی دفاعی فورسز ایران کے جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل پروگرام کو اس حد تک تباہ کر سکتی ہیں کہ اس سے ایرانی حکومت کی بنیادیں ہل جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واشنگٹن کا عمومی نقطہ نظر یہ ہے کہ ٹرمپ ایران پر زیادہ سے زیادہ معاشی دباؤ ڈالنے کے لیے مزید اور بہتر طور پر نافذ پابندیاں لگائیں گے اور اسرائیل کی مضبوط اور مستقل حمایت کریں گے، جیسے کہ انہوں نے اپنے پہلے دور میں کیا تھا۔
اگر ایسا ہوا تو تہران کی مذہبی قیادت سکون کا سانس لے سکتی ہے۔ ٹرمپ کی سابقہ ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی ایسا کچھ نہیں تھی۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ ٹرمپ کے ایک نمائندے نے پہلے ہی اعلان کر دیا ہے کہ نئی انتظامیہ ایران میں حکومت کی تبدیلی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید ٹرمپ اپنے دوسرے دور میں تہران کے ساتھ ایک جامع معاہدہ کر سکیں۔
مزید برآں، پچھلے ہفتے نتن یاہو کی ٹرمپ کو کال میں ظاہر ہونے والی خوش دلی کے باوجود ان کے ذاتی تعلقات کشیدہ ہیں۔ ٹرمپ نے 2021 میں کہا کہ ’پہلا شخص جس نے بائیڈن کو مبارکباد دی وہ نتن یاہو تھا، جس کے لیے میں نے سب سے زیادہ کیا۔ بی بی (نتن یاہو) خاموش رہ سکتا تھا۔ اس نے بہت بڑی غلطی کر دی۔‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کو پہلے کی طرح ٹرمپ کی حمایت کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ چونکہ ٹرمپ آئینی طور پر تیسری مدت کے لیے انتخاب نہیں لڑ سکتے، اس لیے انہیں اسرائیل کے خلاف موقف اختیار کرنے پر منفی اندرونی سیاسی ردعمل کا خوف بھی نہیں ہے۔
بہت کچھ ان نامعلوم حالات پر منحصر ہے جن کا ٹرمپ کو 20 جنوری کو سامنا ہوگا۔ حکومت کی تبدیلی سے انکار کے علاوہ، ٹرمپ بظاہر صرف جلدی سے تنازعے کو ختم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، شاید اس بات کی پروا کیے بغیر کہ کیسے، جو کہ امریکی سیاست میں بہت موثر ثابت ہوا ہے۔
یہ ان کے یوکرین پر موقف کے مطابق ہے۔ اس بات کا دعویٰ کہ یہ تنازعے ان کے صدر رہنے پر کبھی پیدا ہی نہیں ہوتے، جو نہ تو ثابت کیا جا سکتا ہے نہ ہی رد کیا جا سکتا ہے، ٹرمپ ان جنگوں کو بائیڈن کی ناپسندیدہ وراثت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اگر اسرائیل نے ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل ایران کی جوہری خواہشات کو ختم نہ کیا تو یہ ان کے سامنے پہلا اور سب سے اہم مسئلہ ہو گا۔ اگر وہ دوبارہ پابندیوں کے ذریعے ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی اپناتے ہیں تو وہ ایران کے ساتھ ایک حتمی حساب کتاب کو دوبارہ ملتوی کر رہے ہوں گے۔
حتیٰ کہ پابندیوں کو اس سطح پر بحال کرنا جو ٹرمپ کے اوول آفس چھوڑنے کے وقت تھی مشکل ہو گا، کیونکہ بائیڈن کی ناکام اور غیر مؤثر پابندیوں کے نفاذ کی کوششوں نے عالمی سطح پر عمل درآمد کو کمزور کیا ہے۔ ٹرمپ شاید توجہ برقرار رکھنے یا پابندیوں کو مضبوط سطح پر سخت کرنے کا عزم نہ کر سکیں۔
روس، چین اور ایران کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ایران کے شراکت دار مغرب کی پابندیوں کو توڑنے کے لیے سب کچھ کریں گے، جیسا کہ وہ روس کے خلاف یوکرین سے متعلق پابندیوں کو توڑ رہے ہیں۔
ٹیکسس میں رائج کہاوت کے مطابق ٹرمپ صرف ’بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، مگر عمل نہیں کرتے‘ (all hat and no cattle)، یعنی وہ سخت باتیں کرتے ہیں لیکن اپنی بات پر عمل نہیں کرتے۔ چونکہ انہوں نے کبھی ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف فیصلہ کن اقدام کرنے کی خواہش ظاہر نہیں کی، اس لیے یہ فیصلہ اسرائیل پر چھوڑ دیا گیا ہے، جسے اپنے اندرونی سیاسی مسائل بھی حل کرنے ہیں۔
ایک متبادل یہ ہے کہ ایران کے عوام کی اپنی حکومت گرانے میں مدد دی جائے جس سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ تاہم ٹرمپ نے اس معاملے میں بھی بہت کم دلچسپی ظاہر کی ہے، جس سے وہ نایاب مواقع ضائع کر رہے ہیں جو ایران کے شہری کم سے کم بیرونی مدد کے ساتھ حاصل کر سکتے ہیں۔
اگر تہران کے ملا ہوشیار ہیں تو وہ ٹرمپ کو بات چیت کے لیے لامتناہی مواقع دے کر اُلجھانے کی کوشش کریں گے تاکہ ٹرمپ ان سنجیدہ، مستقل حلوں سے ہٹ جائیں جو ملا خود پیدا کر رہے ہیں۔
تمام اہم ابتدائی آزمائشوں میں سے جن کا ٹرمپ کو سامنا ہو گا، مشرق وسطیٰ سب سے نمایاں ہے۔ اس پر صرف مشرقِ وسطیٰ کے ملک ہی نہیں بلکہ چین، روس اور امریکہ کے دیگر مخالفین بھی اتنی ہی گہری نظر رکھیں گے، کیونکہ ٹرمپ کے فیصلوں کے نتائج دور رس ہوں گے۔
نوٹ: کالم نگار ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق دورِ صدارت میں قومی سلامتی کے مشیر رہ چکے ہیں۔ یہ تحریر انہوں نے خصوصی طور پر انڈپینڈنٹ عربیہ کے لیے لکھی ہے۔ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔