انڈین سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ اس کے زیرانتظام کشمیر میں گھات لگا کر کیے جانے والے حملے، فائرنگ اور دستی بم دھماکے نئی دہلی کی جانب سے متنازع علاقے میں حالات معمول پر لانے کی کوشش کو چیلنج کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
پانچ لاکھ انڈین فوجی شمالی علاقے میں تعینات ہیں جو 35 سال سے جاری عسکریت پسندی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس لڑائی میں ہزاروں شہری، فوجی اور عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں۔ رواں سال بھی کم از کم 120 لوگ جان سے گئے۔
1947 میں برطانوی حکمرانی کے خاتمے کے بعد تقسیم ہونے کے بعد سے کشمیر جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں انڈیا اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہو گیا اور دونوں ممالک اس علاقے پر دعویٰ کرتے ہیں۔
انڈیا کی شمالی کمانڈ کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل دیپیندر سنگھ ہوڈا نے کہا کہ ’یہ حملے صرف جان سے مارنے کے لیے نہیں بلکہ ایک بیانیہ بنانے کے لیے ہیں جو انڈین بیانیے کا جواب دے سکے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔‘
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے 2019 میں مسلم اکثریتی علاقے کی جزوی خود مختاری ختم کر دی اور ساتھ ہی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور کئی مہینے تک جاری رہنے والے مواصلاتی بلیک آؤٹ کا آغاز ہوا۔
تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ آبادی والا یہ علاقہ اب سے نئی دہلی کی طرف سے مقرر کردہ گورنر کے تحت چلتا رہا ہے جو مقامی حکومت کی نگرانی کرتا ہے جسے اکتوبر میں مودی کی مخالفت میں منتخب کیا گیا۔
بڑا پیغام
نئی دہلی کا اصرار ہے کہ انہوں نے علاقے میں ’امن، ترقی اور خوش حالی‘ کو فروغ دیا ہے۔
لیکن عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے چھوٹے چھوٹے گروپس جو یا تو آزادی یا کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرتے ہیں، حملوں کے ذریعے ان دعوؤں کی نفی کرتے ہیں۔
ہوڈا کا کہنا تھا کہ ’بڑا پیغام یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ زندہ ہے۔‘
انڈیا الزام لگاتا ہے کہ پاکستان عسکریت پسندوں کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے اور انہیں لائن آف کنٹرول جہاں دونوں ملکوں کی فوجیں موجود ہیں، کے پار حملوں کے لیے ’دراندازی‘ میں مدد دے رہا ہے۔ پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
ہوڈا نے الزام عائد کیا کہ اس سال عسکریت پسندوں کی طرف ’دراندازی میں تیزی‘ ’پاکستانی حکام کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔‘
کئی جھڑپیں ایسے پہاڑوں میں ہوتی ہیں جہاں جنگلات موجود ہیں۔ یہ مقامات بڑے شہروں سے دور ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن بڑے پیمانے پر فوجی کیمپوں اور سڑکوں پر ہونے والی ناکہ بندی کے ساتھ نظر آنے والی بڑی فوجی موجودگی یعنی کشمیر میں تقریباً ہر 25 افراد میں سے ایک انڈین فوجی ہے، ایک مستقل یاد دہانی کا کام کرتی ہے۔
بہت سے لوگ ان فوجی احکامات کی وجہ سے ہونے والے ٹریفک جام سے تنگ ہیں جن کے مطابق عام گاڑیاں فوجی گاڑیوں سے کم از کم پانچ سو میٹر (1640 فٹ) دور رہیں۔
پھر بھی جو لوگ لمبے عرصے سے اس طویل لڑائی کے سائے میں رہ رہے ہیں، وہ بظاہر خطرے کو معمولی جانتے ہیں۔
جب اس ماہ ایک حملہ آور نے مصروف مارکیٹ میں سکیورٹی فورسز پر دستی بم پھینکا، جس سے ایک خاتون کی جان گئی اور 11 شہری زخمی ہوئے، تو خریداری کرنے والے گاہک چند گھنٹے کے اندر واپس آ گئے۔
اس ماہ ہزاروں لوگ فوجی بھرتی مہم میں شریک ہوئے حالاںکہ قریبی ضلع میں فوجی مسلح افراد سے لڑ رہے تھے۔
کم شدت
رواں سال ہندو اکثریتی جموں کے علاقے میں ہونے والے حملوں کے بعد فوج نے ان ہزاروں ملیشیا فورسز کو بندوقیں فراہم کیں، جنہیں گاؤں کے دفاعی محافظ کہا جاتا ہے۔
لیکن نئی دہلی میں قائم مانیٹرنگ گروپ ساؤتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل کے مطابق اس سال 120 شہریوں، فوجیوں اور عسکریت پسندوں کی اموات شدت کے اعتبار سے 2023 سے مماثلت رکھتی ہیں، جب 130 افراد جان سے گئے۔
ایک سکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’جب تک کشمیر (انڈیا اور پاکستان کے درمیان) تقسیم رہے گا، یہ اسی طرح سلگتا رہے گا۔
انڈین فوج کا کہنا ہے کہ گذشتہ پانچ سال میں تقریباً 720 عسکریت پسندوں کو مارا گیا۔
ایک اور سکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’اعلی تربیت یافتہ اور مکمل طور پر مسلح‘ جنگجو لڑائی میں مصروف رہے جو مبینہ طور پر پاکستان سے آئے۔
اہلکار کے مطابق: ’وہ اچانک حملوں سے کچھ نقصان پہنچاتے ہیں۔ لیکن صورت حال قابو میں ہے۔‘
ریٹائرڈ جنرل، ہوڈا اپنے طویل تجربے کی بنیاد پر اس بات کی پیش گوئی کرتے ہیں کہ جب تک تشدد اسلام آباد کے ایجنڈے کو تقویت دیتا رہے گا حالات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔
حملوں کی تعداد کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں ان کے فوراً کم ہونے کی توقع نہیں کرتا۔