سڈنی کے ایس سی جی گراؤنڈ سے پاکستان کی حسین یادیں وابستہ ہیں۔
عمران خان کی شاندار بولنگ سے 1976 اور مشتاق احمد کی جادوئی بولنگ سے 1995 میں ملنے والی فتوحات آج بھی سڈنی کے میرٹ بورڈ پر درج ہیں۔ لیکن یہ دونوں جیت ٹیسٹ میچز میں تھیں، کیونکہ پاکستان اب تک کوئی ٹی ٹوئنٹی میچ سڈنی تو کیا، پورے آسٹریلیا میں نہیں جیت سکا ہے۔
موجودہ سیریز میں پاکستان پہلا میچ برسبین میں ہار چکا ہے۔ اس میچ میں بارش کی وجہ سے کھیل 7 اوورز تک محدود تھا۔ آسٹریلیا نے 7 اوورز میں 93 رنز بنا کر پاکستان کو میچ سے کسی حد تک باہر کر دیا تھا۔ اتنے بڑے سکور کی اہم وجہ گلین میکسویل تھے، جن کے ریورس سوئپ نے میچ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ برسبین کی شکست پر زیادہ تنقید کرنا نامناسب ہوگا کیونکہ یہ ایک مختصر میچ تھا۔
اب دونوں ٹیمیں سڈنی پہنچ چکی ہیں!
کیا پاکستان جیت سکتا ہے؟
پاکستان ٹیم نے جس طریقے سے ون ڈے سیریز کھیلی اور جیتی، اس نے سب کو حیران کر دیا ہے۔ ماضی کے برعکس پہلی مرتبہ پاکستان پوری سیریز میں آسٹریلیا سے زیادہ مضبوط اور طاقتور نظر آیا، جس کا اعتراف سابق کپتان مائیکل کلارک نے بھی کیا۔ انہوں نے اس ٹیم کو گزشتہ 20 سالوں کی بہترین پاکستانی ٹیم قرار دیا۔ تاہم ون ڈے میچوں کے دوران آسٹریلیا نے اپنے نوجوان کھلاڑیوں کو آزمایا تھا، جس کا فرق واضح نظر آیا۔
پاکستان ٹیم اگرچہ ون ڈے سیریز جیت کر برسبین پہنچی تھی، لیکن سب کی توقعات کے برعکس ٹی ٹوئنٹی سیریز کا آغاز کامیابی سے نہیں کر سکی۔
اگرچہ یہ ایک مختصر میچ تھا، لیکن فاسٹ بولرز، جن کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی، معمولی نظر آئے۔
میکسویل جب ریورس سوئپ یا ریورس فلِک لگا رہے تھے تو بولرز انہیں رفتار میں تبدیلی سے روکنے میں ناکام رہے، اور یوں ایک بڑا اسکور بن گیا۔ بلے باز بھی پاور ہٹنگ میں ناکام رہے۔
اب سڈنی میں موسم صاف اور کرکٹ کے لیے موزوں ترین ہے۔ سڈنی کی پچ روایتی طور پر اسپنرز کو مدد فراہم کرتی ہے۔ گیند زیادہ نہیں اٹھتی، جبکہ بیٹنگ کے لیے بھی یہ کافی سازگار ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان کی مجبوری یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی معیاری سپنر موجود نہیں۔ عرفات منہاس اور سفیان مقیم ابھی ناتجربہ کار ہیں۔ پاکستان شاید کسی سپنر کو نہ کھلائے بلکہ چار فاسٹ بولرز کے ساتھ میدان میں اترے۔ سلمان علی آغا پانچویں بولر ہوں گے، جبکہ بوقت ضرورت عرفان خان بھی بولنگ کر سکتے ہیں۔ امکان غالب ہے کہ پاکستان اپنی ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کرے گا۔
پاکستان کے لیے اصل مسئلہ پاور ہٹرز کا فقدان ہے۔ پاکستان کے پاس میکسویل طرز کا کوئی پاور ہٹر نہیں ہے۔ اگر صاحبزادہ فرحان کی جگہ عثمان خان سے اوپننگ کروائی جائے تو پاور پلے کا بہتر استعمال ممکن ہو سکتا ہے۔ سڈنی میں ایک بڑے سکور کی توقع ہے، اس لیے پاکستان کو جارحانہ کرکٹ کھیلنی ہو گی۔
پاکستان کی بولنگ اس وقت جس فارم میں ہے، اس سے پاکستان کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے، اور اگر میکسویل کا بیٹ نہ چلا تو پاکستان کی جیت کے امکانات کافی زیادہ ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آسٹریلیا کے تجربات
آسٹریلیا نے پاکستان کے ساتھ محدود اوورز کی سیریز کو تجربات کی نظر کر دیا ہے۔ نئے کھلاڑیوں کے ساتھ میچ کھیل کر کینگروز نے اگرچہ شکست کا سامنا کیا، لیکن چیمپئنز ٹرافی سے پہلے ایک مضبوط کمک تیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ نئے کھلاڑیوں کے لیے پاکستانی بولنگ قہر بن کر ٹوٹی، اور شاٹ سیلیکشن کی غلطیوں نے سینئرز کو بھی لاچار کر دیا تھا۔ تاہم پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں اچھی کارکردگی نے ان کے حوصلے بلند کیے ہیں۔
آسٹریلیا بھی ممکنہ طور پر وہی ٹیم کھلائے گا جو برسبین میں کھیلی تھی، لیکن شین ایبٹ شاید ٹیم میں واپس آ جائیں اور سپینسر کو آرام دیا جائے۔
پچ کیسی ہوگی؟
سخت گرم موسم میں سڈنی کی پچ پر باؤنس بہت زیادہ نہیں ہوگا، لیکن بلے بازوں کے لیے اطمینان ہوگا کہ گھاس بالکل صاف کر دی گئی ہے۔ سپاٹ اور ہموار پچ پر سپنرز کے لیے بھی رنز روکنا مشکل ہوگا۔ جو ٹیم ٹاس جیتے گی، وہ پہلے کھیلنے کو ترجیح دے گی۔ 170 سے زائد سکور دوسری ٹیم کے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔ پاکستان نے آخری مرتبہ یہاں نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل کھیلا تھا، جس میں پاکستان نے باآسانی کیویز کو شکست دی تھی۔
پاکستان ٹیم کے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ پہلی مرتبہ آسٹریلیا میں کوئی ٹی ٹوئنٹی میچ اور سیریز جیت سکے۔ تاہم اس کے لیے پاکستانی بلے بازوں کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔