’انقلابستان‘ میں تقریباً ہر سیاسی دور میں ہم نے انقلاب لانے کے دعوے اور چھوٹی سی لے کر بڑی بڑی کوششیں بھی دیکھیں، لیکن مقتدرہ کی منشا کے بغیر اپنا ’انقلاب‘ لا کر حکومت کو گھر بھجوانے میں کوئی سیاسی جماعت آج تک کامیاب نہیں ہو سکی۔
یہ بھی اس طرح سے بھی کی جا سکتی ہے بڑے سے بڑے احتجاج کے ذریعے بھی کسی حکومت کو گھر نہیں بھجوایا سکتا، خصوصاً جب مقدرہ کی مرضی اس میں شامل نہ ہو۔
2014 میں عمران خان نے پاکستانی تاریخ کا سب سے لمبا دھرنا دیا اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام اور کچھ میڈیا چینلوں نے ان کا بھرپور ساتھ بھی دیا لیکن وہ ن لیگ کی حکومت کو ختم نہ کر سکے۔
لیکن وہی عمران خان جب 2018 کے انتخابات میں جنرل (ر) فیض کے کندھوں پر چڑھ کر میدان میں اترے تو سر پر آ رٹی ایس کا تاج سجائے وزیراعظم ہاؤس پر براجمان کرا دیے گئے۔
تحریک انصاف کی فائنل کال کے تناظر میں اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ پاکستان میں آج بھی تحریکیں مقتدرہ کی حمایت کے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتیں۔
موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کا واحد رستہ مذاکرات سے ہی نکل سکتا ہے۔ تحریک انصاف فوری طور پر جیل میں قید اپنے رہنماؤں کی رہائی چاہتی ہے جس میں عمران خان اور وہ جن پر نو مئی کے الزامات ہیں، کے علاوہ درمیانی راستہ نکلنے کے امکانات پیدا ہو سکتا ہے۔
لیکن نہ تو 26ویں آئینی ترمیم ختم ہو گی اور نہ ہی موجودہ حکومت گھر جا رہی ہے۔ قیدیوں کے رہائی کے معاملے میں تحریک انصاف قیدی نمبر 804 کی فوری رہائی چاہتی ہے جس میں وہ یہاں تک بھی راضی ہے کہ سی بی ایمز کے لیے عمران خان کو اڈیالہ جیل سے نکال کر بنی گالہ میں ہاؤس اریسٹ کر دیا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن ان سطور تحریر کرنے تک حکومت اور مقتدرہ کی طرف سے عمران خان کی رہائی سمیت پی ٹی آئی کے تمام مطالبات کا جواب صرف ’بگ نو‘ ہی ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ احتجاج اور مظاہرین بے قابو ہو جائیں اور تحریک انصاف بہت بڑا ایمپیکٹ بنا کر اپنے لیے کچھ لیوریج حاصل کر لے ایسا ہو ناممکن تو نہیں کیونکہ ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن فی الحال مشکل لگ رہا ہے۔
دیکھنا یہ ہو گا کہ تحریک انصاف فائنل کال کا کتنا ایمپیکٹ بنا پاتی ہے۔ ابھی تک تحریک انصاف کو کوئی کال اتنی پر اثر ثابت نہیں ہوئی کہ وہ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکے۔ بلکہ الٹا ان احتجاجوں سے تحریک انصاف کے کارکن نہ صرف دلبرداشتہ ہوئے بلکہ اپنی لیڈرشپ پر یہاں تک الزامات لگائے کہ آپ لوگ ملے ہوئے ہیں اور نہیں چاہتے کہ عمران خان رہا ہوں۔
خصوصاً جب علی امین گنڈا پور گذشتہ احتجاج میں کارکنان کو پولیس کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ڈی چوک کو ہاتھ لگا کر ’مارگلہ‘ کی پہاڑیوں میں غائب ہو گئے۔
ان الزامات کے بعد ہی ہم نے دیکھا کہ عمران خان صاحب کی بیگم بشریٰ بی بی فائنل کا کے احتجاج لو باقاعدہ لیڈ کر رہی ہیں۔ ان سطور کے شائع ہونے تک پتہ نہیں فائنل کال ’فائنل کال‘ کا انتظار کر رہی ہو گی، ڈی چوک پہنچ چکی ہو گی یا پھر تھک ہار کر اور شیلنگ اور ڈنڈے کھا کر پشاور واپس ہو چکی ہو گی۔
لیکن ایک بات جو کہ تحریک انصاف کو سمجھنی پڑے گی وہ یہ کہ صوبے کے عوام امن و امان انتہائی مخدوش اور گورننس کی خراب صورت حال سے انتہائی مایوس اور دلبرداشتہ ہیں۔
پرامن احتجاج ہر سیاسی جماعت کا جمہوری حق ہے لیکن بطور حکومت فرائض منصبی کی قیمت پر مہینے میں دو دفعہ ’انقلاب‘ لانا کہاں کا انصاف ہے؟
گذشتہ دنوں ضلع کرم میں ہونے والے دلخراش واقعات سے ہر انسان کا دل دہل گیا جہاں فرقہ واریت کی آڑ میں چند ماہ کے بچوں تک کو نہ بخشا گیا، گاؤں کے گاؤں جلا دیے گئے، اور بربریت کے ایسے قصے رقم ہوئے جنہیں بیان بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن وزیراعلیٰ صاحب کے بے حسی دیکھیں کہ وہاں گئے تک نہیں، کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں کہ کرم کے حالات سنبھل سکیں۔
اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بیرسٹر سیف کو ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر کرم بھجوانے سے حالات سنبھل جائیں گے، تو یقین جانیے وثوق سے یہ تحریر کر رہا ہوں کہ وزیراعلیٰ کرم میں کے حالات سے ناواقف اور نابلد ہیں۔
گذشتہ چھ سات ماہ سے وہاں حالات ایسے تھے کہ کسی بھی وقت چنگاری بھڑک کر آگ لگ سکتی تھی لیکن وزیراعلی صاحب اسلام آباد کی پہلے سیمی فائنل کال اور اب فائنل کال میں جتنے مصروف تھے۔ ان سے یہی توقع کی جا سکتی تھی کہ ان کی توجہ اس اہم مسئلے کی جانب بالکل مبذول نہیں ہو گی۔
باقی ماندہ سابقہ قبائلی اضلاع کی تو بات ہی نہ کریں، جہاں پولیس کی عمل داری باقی ہی نہیں رہی، ڈی آئی خان اور کوہاٹ کا امن و امان کی صورت حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ حکومت اس جانب نہ صرف توجہ دے بلکہ وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اس مسلے کا حل نکالیں، ورنہ پھر وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کو سوچنا پڑے گا کہ صوبے کو مزید تباہی اور بدامنی کی طرف دھکیلنا ہے یا کوئی حل نکالنا ہے۔
ایسا مزید نہیں چل سکتا ہے انقلاب پورے پاکستان میں لانا ہے لیکن صرف ایک صوبے کے وسائل استعمال کر کے اور وہاں بدامنی اور بیڈ گورننس کو مکمل نظر انداز کر کے۔ آپ 12 مہینے احتجاج کرتے رہیں لیکن خدارا جس صوبے نے آپ کو تیسری دفعہ منتخب کیا ہے اس سے سوتیلی ماں جیسا سلوک تو نہ کریں۔
خود تحریک انصاف کے مرکزی رہنما شیرافضل مروت کے الفاظ میں، ’ہمیں اس دفعہ عمران خان کے نام پر لوگوں نے ووٹ دیے۔ اگر پرفارمنس کی بنیاد پر دیتے تو ہم نہ جیتتے، لیکن ہم نے اب بھی ڈیلیور نہ کیا تو اگلی بار پھر اللہ حافظ ہے۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔