خیبر سے کراچی تک مشہور حضرو کی زری چپل، جو اپنے دیدہ زیب ڈیزائن اور پائیداری کے لیے جانی جاتی ہے، آج زوال کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
حضرو کے کاریگر نثار احمد، جو 43 سال سے زری چپل بنانے کے ماہر ہیں، بتاتے ہیں کہ یہ چپل مقامی ثقافت کا اہم حصہ ہے۔
بقول نثار احمد: ’شادی بیاہ اور خوشی کی تقریبات میں تلے والی کھیڑی پہننے کا رواج آج بھی زندہ ہے، لیکن مہنگائی اور نئی نسل کی عدم دلچسپی اس فن کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ چپل مکمل طور پر ہاتھ سے تیار کی جاتی ہے، جس میں بکری، گائے اور بھینس کی اعلیٰ معیار کی کھال استعمال ہوتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خاص زری چپل کی تیاری میں ایک سے ڈیڑھ ماہ لگتا ہے اور اس کی قیمت تین ہزار سے 60 ہزار روپے تک ہوتی ہے۔
نثار احمد کہتے ہیں: ’اگر مناسب دیکھ بھال کی جائے تو یہ چپل 10 سال تک اپنی چمک اور مضبوطی برقرار رکھتی ہے۔‘
نثار احمد نے 2000 میں امریکی صدر بل کلنٹن کے لیے ایک سپیشل زری چپل تحفتاً بھیجی تھی، جس پر وائٹ ہاؤس سے شکریے کا کارڈ بھی موصول ہوا۔
نثار احمد یاد کرتے ہیں، ’یہ لمحہ میرے لیے اعزاز تھا۔‘
بعد میں صدر بش کو بھی ایک جوڑا ارسال کیا گیا، لیکن جواب نہیں آیا۔
انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ حضرو میں خواتین کے ہاتھوں تلے کی کڑھائی کا کام ختم ہو چکا ہے اور اب یہ کام تحصیل فتح جنگ کے قصبے کھنڈا اور کامرہ میں خواتین انجام دیتی ہیں۔ ’نئی نسل اس فن میں دلچسپی نہیں رکھتی اور مہنگائی کی وجہ سے اب صرف مال دار لوگ ہی زری چپل خرید سکتے ہیں۔‘
نثار احمد نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ اگر اس فن کو فروغ دیا جائے تو یہ نہ صرف کاریگروں کو خوشحال کرے گا بلکہ زرمبادلہ کمانے اور نوجوان نسل کو روزگار دینے کا بھی ذریعہ بن سکتا ہے۔
بیرون ملک پاکستانی کمیونٹی زری چپل کو بہت پسند کرتی ہے، لیکن ان کے لیے یہ دستیاب نہیں۔
نثار احمد کا کہنا ہے کہ ’یہ صرف ایک چپل نہیں، بلکہ ہماری ثقافت کی پہچان ہے۔‘