گولان پہاڑیاں کیوں اہم ہیں اور اسرائیل نے یہاں کیوں قبضہ کیا ہے؟

پیر کو اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نتن یاہو نے ایک بیان میں کہا کہ گولان کی پہاڑیاں ’ابد تک‘ اسرائیل کا حصہ رہیں گی، تاہم اقوامِ متحدہ نے اس کی مخالفت کی ہے۔

اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں میں مجد الشمس کے دروز گاؤں کے قریب شام کے ساتھ بفر زون میں اسرائیلی فوجی گاڑیاں 11 دسمبر 2024 کو داخل ہو رہی ہیں (اے ایف پی)

پچھلے ہفتے جب شام میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ اچانک الٹ گیا تو اس دوران جو واقعات پیش آئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اسرائیل نے تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے گولان کی پہاڑیاں پر واقع بفر زون پر قبضہ کر لیا اور وہاں مسلسل اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کیے چلا جا رہا ہے۔

پیر کو اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نتن یاہو نے ایک بیان میں کہا کہ گولان کی پہاڑیاں ’ابد تک‘ اسرائیل کا حصہ رہیں گی۔

متعدد ملکوں نے اس بیان پر تنقید کی ہے اور اقوامِ متحدہ نے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، مگر اسرائیل کا موقف تبدیل نہیں ہوا۔

اس علاقے کی اہمیت کیا ہے اور اسرائیل کیوں یہاں پر قابض رہنا چاہتا ہے؟

گولان کی پہاڑیاں کہاں واقع ہیں؟

گولان کی پہاڑیاں شام کے مغرب میں دفاعی نقطۂ نظر سے بہت اہم علاقہ ہے جس کی سرحدیں اسرائیل، لبنان اور اردن سے ملتی ہیں۔ یہ شام کے دارالحکومت دمشق سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے اور اس کا رقبہ 1200 مربع کلومیٹر ہے۔

یہ علاقہ پہاڑی مگر زرخیز ہے جہاں سیب، انگور اور چیری وسیع پیمانے پر اگتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریائے اردن بھی یہیں سے نکلتا ہے۔ یہاں بڑے پیمانے پر سیاح آتے ہیں اور یہیں شام، اردن اور اسرائیل کا بلند ترین مقام بھی واقع ہے جس سے اس کی عسکری اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔

گولان کی پہاڑیاں کس کی ملکیت ہیں؟

1967 تک گولان کی پہاڑیاں شام کا حصہ تھیں مگر اسی سال ’چھ روزہ جنگ‘ کے دوران اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ 1981 میں اسرائیل نے ضم کر کے وہاں اسرائیلی قوانین نافذ کر دیے، لیکن یہ الحاق بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا، اور اقوامِ متحدہ نے اس کی مذمت کی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شام کا اب بھی اس علاقے کی ایک چھوٹی سی پٹی پر قبضہ ہے اور وہ اسرائیل سے باقی علاقے سے نکلنے کا مطالبہ کرتا ہے، لیکن اسرائیل سکیورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے ایسا کرنے سے انکار کرتا رہا ہے۔

1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں شام نے گولان کی پہاڑیاں واپس لینے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ 1974 میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔ تب سے یہ علاقہ نسبتاً پرامن رہا ہے۔

شام کی سرحد کے ساتھ ملحق علاقے پر اقوامِ متحدہ کی امن فوج کیمپوں اور چوکیوں پر تعینات ہے۔

اپریل 2024 میں یہاں اقوام متحدہ کی امن فوج کے 12 سو سے زیادہ اہلکار موجود تھے۔ اس علاقے کو غیر فوجی زون کہا جاتا ہے، جہاں دونوں فریقوں کی افواج داخل نہیں ہو سکتیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں اسرائیل نے تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے اس غیر فوجی علاقے پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔

گولان میں اقوامِ متحدہ کی فوج کہاں تعینات ہے؟

گولان کی پہاڑیوں میں اقوام متحدہ کی ڈس انگیجمنٹ آبزرور فورس (UNDOF) کیمپوں اور چوکیوں میں تعینات ہے، جسے اقوام متحدہ کی جنگ بندی نگرانی تنظیم (UNTSO) کے فوجی مبصرین کی حمایت حاصل ہے۔

اسرائیلی اور شامی افواج کے درمیان 400 مربع کلومیٹر کا غیر فوجی زون قائم ہے، جہاں جنگ بندی کے معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی افواج کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔

31  مئی 1974 کے معاہدے کے تحت، علاقے کے مغرب میں ایک ’الفا لائن‘ بنائی گئی ہے، جس کے پیچھے اسرائیلی افواج کو رہنا ہوتا ہے، اور مشرق میں ’براوو لائن،‘ جس کے پیچھے شامی افواج کو رہنا ہوتا ہے۔

غیر فوجی علاقے کے دونوں طرف 25 کلومیٹر کا ایک ’حد بندی کا علاقہ‘ بھی قائم ہے، جہاں دونوں ممالک کے فوجیوں کی تعداد اور ہتھیاروں کی قسم پر پابندیاں عائد ہیں۔

گولان میں کون رہتا ہے؟

گولان میں تقریباً 55 ہزار افراد مقیم ہیں، جن میں 24 ہزار دروز ہیں۔ دروز نسلی طور پر عرب  ایک عرب اقلیت ہیں اور اسلام سے نکلی ہوئی ایک شاخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسرائیل نے ان کو شہریت کی پیشکش کی لیکن زیادہ تر نے اسے مسترد کرتے ہوئے شامی شہریت برقرار رکھی اور وہ خود کو شامی شہری سمجھتے ہیں۔

جب اسرائیل نے گولان پر قبضہ کیا تو بہت سے مقامی لوگ وہاں سے شام کے مختلف علاقوں میں منتقل ہو گئے، مگر دروز برادری کے بہت سے لوگ وہیں رک گئے۔ دروز نسلی طور پر عرب ہیں اور عربی زبان بولتے ہیں۔ شام کے علاوہ ان کی کچھ تعداد اردن، لبنان اور اسرائیل میں بھی آباد ہیں۔

قبضے کے بعد یہاں پر اسرائیل آبادکاروں کی خاصی تعداد آ بسی تھی۔ اس وقت یہاں آباد کاروں کی 30 سے زیادہ بستیاں ہیں جہاں تقریباً 31 ہزار لوگ مقیم ہیں، جن میں سے زیادہ تر زراعت، خصوصاً انگور کی کاشت، اور سیاحت کے شعبوں سے منسلک ہیں۔

اسرائیل گولان کی پہاڑیاں پر قبضہ کیوں چاہتا ہے؟

اسرائیل شام کی دہائیوں طویل خانہ جنگی کے دوران کہتا رہا ہے کہ گولان کی پہاڑیاں شورش زدہ علاقوں اور اسرائیلی سرزمین کے درمیان ایک بفر زون کے طور پر ضروری ہیں۔

اسرائیلی حکومت کو یہ بھی خدشہ ہے کہ ایران شام کی سرحد کے قریب مستقل اڈہ قائم کر کے اسرائیل پر حملے کر سکتا ہے۔ اسی وجہ سے اسرائیل نے اسد کی حکومت کے خاتمے سے پہلے کے برسوں میں شام میں ایرانی فوجی ٹھکانوں پر بار بار فضائی حملے کیے ہیں۔

اسی علاقے میں 9232 فٹ بلند کوہِ ہرمون یا جبل الشیخ بھی واقع ہے، جو شام اور اسرائیل کی بلند ترین چوٹی ہے اور یہاں اکثر برفباری ہوتی ہے اور یہاں ایک سکی ریزورٹ بھی واقع ہے۔

اسرائیل اور شام دونوں گولان کی پہاڑیوں کے قدرتی آبی وسائل اور زرخیز زمین کے خواہاں رہے ہیں۔

دنیا کا گولان کی پہاڑیوں پر کیا موقف ہے؟

1981 میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں کے بڑے حصے کو ضم کر کے وہاں اسرائیل کے قوانین نافذ کر دیے، مگر کسی اور ملک نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ دیگر تمام ملک اس خطے کو شام کی ملکیت سمجھتے ہیں جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔

1981  میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی، جس میں اسرائیل کے قبضے کی مخالفت کرتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قانون کے نفاذ کو واپس لے۔ اس قرارداد میں اسرائیل کے گولان پر حکمرانی کو ’کالعدم، غیر مؤثر اور بین الاقوامی قانونی حیثیت سے محروم‘ قرار دیا گیا۔

2019  میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی حاکمیت کو تسلیم کر لیا۔ انہوں نے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کو ایک نقشے پر دستخط کر کے بھی دیے جس میں بظاہر یہ علاقہ اسرائیل کی ملکیت دکھایا گیا ہے۔

2021 میں جو بائیڈن امریکی صدر بنے مگر ان کے دور میں بھی امریکی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا