برطانیہ میں قائم جنگی مانیٹر سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے دمشق کے علاقے برزہ میں کیے جانے والے حملوں میں وزارت دفاع کا ایک تحقیقی مرکز مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ ’اسرائیلی جنگی طیاروں نے 100 سے زیادہ حملے کیے ہیں... بشمول برزہ سائنسی تحقیقی مرکز پر۔‘
امریکہ سمیت مغربی ممالک نے 2018 میں اس تنصیب پر حملہ کیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ اس کا تعلق شام کے ’کیمیائی ہتھیاروں کے بنیادی ڈھانچے‘ سے ہے۔
اسرائیلی فوج نے منگل کو ان خبروں کی تردید کی کہ اس کے ٹینک دمشق کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں، اس بات پر اصرار کرتے ہوئے کہ اسرائیلی افواج اسرائیل اور شام کی سرحد کے قریب ایک بفر زون میں تعینات ہیں۔
شام کی سیاسی فضا میں اس وقت زبردست تبدیلی آئی جب بشار الاسد کی حکومت ختم ہوئی اور وہ روس فرار ہو گئے۔ دمشق اور اپوزیشن کے زیر قبضہ دیگر علاقوں میں خوشی کے مناظر دیکھنے میں آئے، جہاں لوگوں نے اسد حکومت کے خاتمے کو ایک نئی امید کے طور پر دیکھا۔
مسلح اپوزیشن نے تیزی سے اہم حکومتی اداروں پر قبضہ کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا، جس نے شام کی تاریخ میں ایک نیا باب کھول دیا۔
تاہم، یہ تبدیلیاں نہ صرف شام کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے گہرے اثرات رکھتی ہیں۔
بشار الاسد کے ملک چھوڑنے کے چند گھنٹوں بعد، اسرائیلی فوج نے شام میں بڑی فوجی کارروائیاں شروع کیں۔ ان کارروائیوں میں 100 سے زائد مقامات پر فضائی حملے شامل تھے۔
اسرائیلی جنگی طیاروں نے دیر الزور، قلمون، اور دمشق کے مختلف علاقوں میں ہتھیاروں کے ذخائر، فضائی دفاعی نظام اور فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا۔
اہم مقامات جیسے دمشق انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور المزہ ایئربیس پر حملے کیے گئے، جہاں میزائل کی پیداوار اور ذخیرہ کرنے کی تنصیبات کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔
ان کارروائیوں کے ساتھ ساتھ، اسرائیلی زمینی افواج نے شام کی حدود میں 11 کلومیٹر تک پیش قدمی کرتے ہوئے بفر زون اور جبل الشیخ (ماونٹ ہرمون) کے اہم مقامات پر قبضہ کر لیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے 1974 میں طے پانے والے اسرائیل - شام علیحدگی معاہدے کو غیر مؤثر قرار دے دیا۔
انہوں نے کہا کہ اسد کی فوج کی شکست اور اپوزیشن کی غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر یہ معاہدہ اب قابلِ عمل نہیں رہا۔
گولان کی پہاڑیوں کے دورے کے دوران نتن یاہو نے اسرائیل کے عزائم کو واضح کرتے ہوئے شمالی سرحد کی حفاظت کو اولین ترجیح قرار دیا۔
اسرائیلی خدشات اور انٹیلی جنس کی ناکامی
بشار الاسد کے زوال کے بعد پیدا ہونے والے خلا نے اسرائیلی حکام اور تجزیہ کاروں کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا۔
اسرائیل کی دہائیوں پرانی پالیسی اس بات پر مبنی تھی کہ اسد کی حکومت کی موجودگی شمالی سرحد پر امن کی ضمانت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیلی اخبار ہاریٹز کے عسکری تجزیہ کار اموس ہارل نے اس صورت حال کو ’انٹیلی جنس کی ناکامی‘ قرار دیا، کیونکہ اسرائیلی اور مغربی انٹیلی جنس اسد حکومت کے اچانک خاتمے کی پیش گوئی کرنے میں ناکام رہے۔
تل ابیب یونیورسٹی کے فلسطینی سٹڈیز فورم کے سربراہ مائیکل ملسٹائن نے شام کی بدلتی ہوئی صورت حال کو ’تاریخی زلزلہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا اثر نہ صرف شام بلکہ پورے خطے پر ہو گا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ شام کے مختلف دھڑوں میں بٹنے کا خطرہ موجود ہے، جو حریف طاقتوں کے عروج کا باعث بن سکتا ہے۔ جبل الشیخ اور دیگر علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو عارضی اقدام قرار دیا گیا، جس کا مقصد سرحد کو مستحکم کرنا اور ابھرتے ہوئے خطرات کی نگرانی کرنا بتایا گیا۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ اقوام متحدہ کی نگران فورس (UNDOF) کے ساتھ ہم آہنگی کی گئی ہے۔ تاہم بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی پر اسرائیل کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے فوجی موجودگی کو ممکنہ خطرات کے خلاف حفاظتی اقدام قرار دیتے ہوئے اسرائیل کے دفاع کے حق پر زور دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ شام کی بدلتی صورت حال میں اسرائیل کے لیے اپنی سلامتی یقینی بنانا ضروری ہے۔
خطے میں نئے تنازعات کے امکانات
بشار الاسد حکومت کے خاتمے اور اسرائیلی جارحیت نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔
اسد حکومت کے خاتمے سے پیدا ہونے والا خلا اور اپوزیشن کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طاقت نے خطے کو ایک غیریقینی دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔
شامی اپوزیشن کو اب نہ صرف ریاستی ادارے دوبارہ قائم کرنے کا چیلنج درپیش ہے بلکہ جنوب میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف حکمت عملی بھی تیار کرنی ہے۔
اسرائیل کی جارحیت نے خطے میں طاقت کے توازن کی پیچیدگیوں کو مزید اجاگر کر دیا ہے اور مستقبل میں نئے اتحادوں اور تنازعات کے امکانات کو جنم دیا ہے۔
آئندہ ہفتے اور مہینے یہ طے کریں گے کہ شامی اپوزیشن کس حد تک اپنے ملک کو مستحکم کر سکتی ہے اور کیا اسرائیل کی موجودہ کارروائیاں صرف وقتی اقدامات ہیں یا یہ اس کے طویل مدتی جغرافیائی عزائم کا حصہ ہیں۔
اس تبدیلی کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے نئے مظاہر سامنے آ سکتے ہیں، جن کے اثرات عالمی سیاست پر بھی مرتب ہونے کا امکان ہے۔