ہزاروں شامی جو آخر کار محصور کیمپ کی خوف ناک زندگی سے بچ نکلے

شام کی خانہ جنگی کے دوران آٹھ ہزار بے گھر افراد کو سخت ترین محاصرے والے رکبان کیمپ میں سڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔

شامی پناہ گزین 2016 میں رکبان کیمپ سے اردن میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں (اے ایف پی)

شام کی خانہ جنگی کے دوران صحرا کے وسط میں مٹی سے بنی جھونپڑیوں میں رہنے والے آٹھ ہزار بے گھر افراد کو سخت ترین محاصرے والے رکبان کیمپ میں سڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا، جن کا خیال تھا کہ وہ یہاں سے کبھی زندہ واپس نہیں لوٹ پائیں گے۔

نو سال تک بشار الاسد حکومت نے اس کیمپ میں خوراک، پانی اور ادویات کی سپلائی کو روکے رکھا یہاں تک کہ اسمگلنگ کے راستے بھی بند کر دیے اور اسے ’نو مینز لینڈ‘ کا نام دیا گیا۔

اس حقیقت کے باوجود کہ یہ امریکی فوجی اڈے اور اردن کی سرحد سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر اور اس علاقے میں واقع ہے، جس پر اصل کنٹرول امریکہ کا تھا۔

وہاں رہنے والے خاندان کیمیائی ہتھیاروں کے حملوں اور ملک کے دوسرے حصوں میں محاصرے سے فرار ہو کر اردن کی سرحد کے راستے فرار ہونا چاہتے تھے، جسے 2015 میں سیل کر دیا گیا تھا، اس طرح وہ اس علاقے میں پھنس گئے۔

تقریباً ایک دہائی تک وہ باسی چاولوں اور روٹی ٹکڑوں پر زندہ رہے، اپنے بچوں کو ان بیماریوں سے مرتے دیکھا جو قابل علاج تھیں اور ان بنجر زمینوں میں جہاں وہ رہتے تھے، زندہ رہنے کی دعائیں کرتے۔

اقوام متحدہ کے آخری قافلے کو ستمبر 2019 میں کیمپ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔

ان کے لیے زندگی کی واحد امید امریکہ میں قائم ایک چھوٹی غیر سرکاری تنظیم ’سوریہ ایمرجنسی ٹاسک فورس‘ (ایس ای ٹی ایف) تھی جس نے امریکی فوج سے درخواست کی کہ وہ امریکی اڈوں سے انہیں کیمپ میں رسد لے جانے اور بنیادی سامان پہنچانے کی اجازت دے۔

دمشق کے ایک مشرقی مضافاتی علاقے سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ احمد شیخ الغانامہ ایک دہائی سے زائد عرصے بعد پہلی بار اپنے آبائی شہر میں داخل ہوئے تو انہوں نے نم آنکھوں سے بتایا کہ ’یہ پوری جنگ میں اب تک کا سب سے مشکل محاصرہ تھا۔‘

2011 کے انقلاب کے آغاز پر نوجوان احمد شیخ الغانامہ حکومت مخالف فورسز میں شامل ہو گئے اور دارالحکومت کے مشرقی مضافاتی علاقے غوطہ پر اگست 2013 میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے سے بچنے کے بعد رکبان فرار ہو گئے۔

اس کیمیائی حملے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں 17 ہزار لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے۔

احمد گذشتہ ہفتے تک اپنی بیوی اور زندہ بچ جانے والے ایک بچے کے ساتھ رکبان کیمپ میں مقیم تھے، جب انہیں معلوم ہوا کہ بشار الاسد ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔

دمشق میں داخل ہونے کے بعد احمد نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’جب میں نے سنا کہ اسد حکومت گر گئی ہے تو میں رونے سے تقریباً بے ہوش ہو گیا تھا۔

’ہم چوکی پر گئے اور اسے خالی کرایا۔ آزاد ہونا ایک خواب جیسا تھا۔ چند گھنٹوں کے اندر انہوں نے کہا کہ اسد فرار ہو گئے۔‘

انہوں نے روتے ہوئے بتایا: ’سب سے مشکل بات یہ تھی کہ ہمارے پاس ڈاکٹر نہیں تھے۔ میری بیوی نے پہلے بچے کو جنم دیا، لیکن وہ مر گیا کیونکہ سرجری میں بہت دیر ہو چکی تھی۔ میری ایک بیٹی بھی مر گئی تھی۔‘

احمد کے بقول: ’کیمپ میں ایسے لوگ تھے جو دم گھٹنے اور کرونا جیسے بخار سے مر گئے۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کے پاس کیا ہے۔ آپ کو پیراسیٹامول بھی نہیں مل سکتی تھی۔

’اگر آپ کے سر میں درد ہے تو آپ (ایک گولی) بھی افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔‘

ان لوگوں کے لیے واحد لائف لائن ایس ای ٹی ایف تھی، جس نے امریکی فوج کے ساتھ بات چیت کی تاکہ خطے میں امریکی اڈوں کے جال کے ساتھ واقع اس کیمپ کے لیے خوراک کی منتقلی کی اجازت دی جا سکے۔

یہ امریکی اڈے عراق اور اردن سے شروع ہو کر شام میں تنف گیریژن پر ختم ہوتے ہیں، جو شام سے صرف 16 کلومیٹر دور ہے۔ اس تنظیم کو سابق حکومت میں یہ سامان سمگل کرنا پڑتا تھا۔

ایس ای ٹی ایف کے بانی معاذ مصطفیٰ، جنہوں نے کیپیٹل ہل پر کانگریس مین وک سنائیڈر اور سینیٹر بلانچ لنکن کے لیے بطور سٹاگ ممبر کام کیا تھا، دمشق میں داخل ہوتے وقت احمد کے ساتھ تھے۔

معاذ نے کہا کہ ان کی تنظیم نے آٹھ ہزار مایوس لوگوں کے لیے فراہمی کی کوشش کرتے ہوئے دیوالیہ ہونے کا خطرہ مول لیا تھا اور اسد حکومت کے خاتمے سے پہلے کے مہینوں میں وہ فکر مند تھے کہ وہ کب تک اسے جاری رکھ سکیں گے۔

معاذ نے بھی روتے ہوئے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’رکبان کیمپ میں کچھ لوگ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں واپس چلے جاتے جہاں ان کے پاس محض ایک فیصد موقع ملتا کہ وہ اپنے بچوں کا علاج کر سکیں، لیکن آخر کار ان سے پوچھ گچھ کی جاتی اور تشدد کیا جاتا جو کہ موت سے بھی بدتر ہوتا۔‘

ان کے بقول: ’وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں تھے۔ کبھی کبھی لوگ مجھے فون کرتے اور کہتے، 'میرا بچہ مر گیا لیکن مجھے کوئی اندازہ نہیں کیوں۔ کیا کوئی (ڈاکٹر) صرف اس کی تشخیص کر سکتا ہے تاکہ میں جان سکوں کہ کیا میرے دوسرے بچے بھی مر جائیں گے؟'

صحرا کا یہ چھوٹا اور الگ تھلگ حصہ محاصرے کے دوران عالمی سطح پر بدنامی کا باعث بنا کیونکہ یہ امریکی فوجی اڈے اور اردن کی سرحد کے قریب ہونے کے باوجود بہت شدید انسانی بحران کا شکار تھا۔

جولائی میں برطانیہ کی ڈپٹی پولیٹیکل کوآرڈینیٹر لورا ڈکس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہاں پھنسے ہوئے لوگوں کی حالت زار کو اٹھایا اور شامی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کیمپ تک فوری طور پر تجارتی اور انسانی رسائی کی اجازت دے۔

رواں سال ستمبر میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے رپورٹ کیا کہ کیمپ کے ناقابل رہائش حالات کے باوجود اردن نے ’غیر قانونی طور پر شامیوں کو ملک بدر‘ کر رکھا ہے۔

عالمی تنظیم نے امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ ایسا کرنے کی صلاحیت کے باوجود مایوس کن صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے بہت کم کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے صورت حال کو ’ناقابل تصور‘ قرار دیا۔

یہ کیمپ 2012 میں قائم کیا گیا تھا کیونکہ یہ اردن اور عراقی سرحدوں کے سنگم پر تھا، جس سے جنگ سے فرار ہونے والے خاندانوں کو اردن میں پناہ حاصل کرنے کے لیے کیمپ سے گزرنے کی اجازت ملتی تھی۔

یہ سب کچھ اسی طرح جاری رہا لیکن 2015 میں اس وقت رک گیا جب اردن نے لاکھوں پناہ گزینوں کے بوجھ سے مغلوب ہو کر شامیوں کا ملک میں داخلہ بند کر دیا جب تک کہ ان کے پاس اردن کے رہائشی اجازت نامے نہ ہوں یا محدود تعداد میں خصوصی استثنیٰ نہ ہوں۔

ایک سال بعد ایک خودکش بم حملے میں اپنے چھ فوجیوں کی موت کے بعد اردن نے اعلان کیا کہ وہ شام اور عراق کے ساتھ اپنے سرحدی علاقوں میں فوجی زونز بند کر رہا ہے۔

اسی وقت شام کی حکومت نے بھی اپنا محاصرہ سخت کر دیا، یہاں چوکیاں قائم کیں جس نے سمگلنگ کے غیر رسمی راستوں کو بھی مسدود کر دیا جس پر کیمپ کے رہائشی بنیادی ضروریات کے لیے انحصار کرتے تھے۔

2018 میں کیمپ کے مکینوں نے مٹی، کنکر، بھوسے اور پانی کا استعمال کرتے ہوئے عارضی مٹی کی اینٹوں سے جھونپڑیاں بنانا شروع کیں جنہیں وہ دھوپ میں سکھاتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ ایک سانحے کے بعد بھی جاری رہا جب ایک چھ ماہ کی بچی شدید بارش کے بعد ایک کچی مٹی کے جھونپڑے تباہ ہونے کے بعد ڈوب کر جان سے گئی۔ وہ ایک ہفتے تک اسی طرح رہتے رہے۔

معاذ نے بتایا: ’میں کہتا رہا، مجھے نہیں معلوم کہ ہم کیسے اسے چلاتے رہیں گے۔ ہم ایک چھوٹی سی تنظیم ہیں، کوئی اقوام متحدہ جیسا ادارہ نہیں، کوئی بین الاقوامی برادری نہیں، وہاں سرحدیں بند تھیں اور مکمل محاصرہ تھا۔

’مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ کتنا پائیدار ہے۔ میں نے کہا، یہاں تک کہ اگر تنظیم مکمل طور پر دیوالیہ بھی ہو جاتی ہے، تب بھی ہم اس میں شامل رہیں گے۔‘

انہوں نے کہا: ’اگر ہم نے ہار مان لی اور سوچتے کہ یہ ناقابل عمل ہے تو یہ لوگ مر چکے ہوتے۔ اس کے بعد سے بہت سارے لوگوں نے مجھے فون کیا اور گھر جانے تک کھانا کھلانے کا شکریہ ادا کیا ورنہ یہ سب ختم ہو چکا ہوتا۔‘

احمد 15 سالوں میں پہلی بار اپنے آبائی شہر دمشق میں داخل ہوا تھا۔ اس نے ابھی تک اپنی ماں کو نہیں دیکھا جو پڑوسی ملک لبنان میں پناہ لیے ہوئے تھی۔

انہیں معلوم ہوا کہ ان کے تین دوست جو صیدنایا کے عقوبت خانے میں لاپتہ ہو گئے تھے، ممکنہ طور پر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

احمد کے بقول: ’13 سالوں سے، ہماری واحد امید خدا تھی۔ اب ہمیں مستقبل کی امید ہے، اس کے لیے جو ہم نے خود حاصل کیا ہے۔

}میری خواہش ہے کہ ان 14 سالوں میں مرنے والے لوگ یہ دن دیکھنے کے لیے ہمارے ساتھ ہوتے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم نے ان کا مقصد، ان کی امید اور ان کے خوابوں کو حاصل کر لیا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا