بی جے پی کا ’ایک ملک ایک انتخاب‘ کا منصوبہ

انڈیا میں اس وقت ہر ایک کے ذہن پر سوال چھایا ہوا ہے کہ حکمران جماعت بی جے پی کو یہ بل پیش کرنے کی اتنی جلدی کیوں تھی، اور اپوزیشن اتنی مخالفت کیوں کر رہی ہے؟

آٹھ نومبر 2024 کو سری نگر میں اسمبلی اجلاس کے دوران انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کی قرارداد کے خلاف احتجاج کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کے اراکین اسمبلی نعرے لگا رہے ہیں (توصیف مصطفیٰ/ اے ایف پی)

جس روز انڈین پارلیمان میں آئین کے 75 برس مکمل ہونے پر پرجوش تقاریر ہو رہی تھیں اور حزبِ اختلاف حکمران جماعت پر آئین شکنی کے الزامات کی بھرمار کر رہی تھی، اسی روز حکومت نے ’ایک ملک ایک انتخاب‘ (One Country, One Election) کے عنوان سے بل پیش کیا جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ آئین اور وفاقی نظام کو ختم کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔

یہ بل معمولی اکثریت سے پاس تو ہو گیا ہے، مگر اپوزیشن کی مخالفت کے باعث اسے قانون بننے سے پہلے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کرنے کی مانگ قبول کرنا پڑی، جو ماضی میں بی جے پی کی روایات کے برعکس ہے۔

حکومت کو اپوزیشن کے اصرار پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا اعلان کرنا پڑا جو31 ممبران پر مشتمل ہو گی اور اس کمیٹی میں سبھی جماعتوں کی نمائندگی لازمی ہو گی۔

انڈیا میں اس وقت ہر ایک کے ذہن پر سوال چھایا ہوا ہے کہ حکمران جماعت بی جے پی کو یہ بل پیش کرنے کی اتنی جلدی کیوں تھی، اور اپوزیشن اتنی مخالفت کیوں کر رہی ہے، اگر اس سے انتخابی عمل کو ایک ہی بار مکمل کرکے اخراجات، وسائل اور بجٹ کو کم کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ پڑوسی ملکوں میں اس کی مثالیں موجود ہیں؟

حیدرآباد میں مقیم سیاسیات کے استاد ڈاکٹر سنجیو شکھاوت کہتے ہیں کہ ’اگر اس بل کا مقصد بجٹ یا وسائل بچانا ہوتا تو میرے خیال میں اس کی مخالفت کوئی نہیں کرتا۔

دراصل بی جے پی کی منشا ہے کہ وہ ان ریاستوں میں انتخابات کو ٹالے یا پارلیمان کے ساتھ پولنگ کرائے جہاں اس کی حکومت بننے کے چانسز کم ہیں، مثلاً دہلی وغیرہ۔ دوسرا، بی جے پی ہمیشہ سے انڈین وفاقی نظام کی سب سے بڑی دشمن رہی ہے اور وہ تمام اختیارات کا محور مرکز کو بنانا چاہتی ہے، لہٰذا وہ آئین میں موجود وفاقی نظام سے متعلق شقیں بدلنا چاہتی ہے۔

بی جے پی نے انڈیا پر حکمرانی کرنے کا خواب 2047 تک سجا رکھا ہے۔‘کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن کا خیال ہے کہ جس طرح بی جے پی انتخابات سے جڑی ساری مشینری حالیہ پولنگ کے دوران استعمال کرتی آ رہی ہے، اس کو مد نظر رکھ کر کسی دوسری پارٹی کا الیکشن جیتنا ناممکن ہو گیا ہے۔

اس کی مثال ہریانہ اور مہاراشٹر کے حالیہ ریاستی انتخابات کی دی جا سکتی ہے، جہاں حکمران جماعت پر دھاندلی سے الیکشن جیتنے کا الزام ہے۔

حکمران جماعت نے گذشتہ برس سابق صدر رام ناتھ کووند کی سربراہی میں نو رکنی ٹیم بنائی، جس نے ساڑھے 18 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ میں ملک میں ہر پانچ سال کے بعد 28 ریاستوں، آٹھ یونین ٹریٹریز اور تقریباً 90 کروڑ ووٹروں کے لیے ایک ہی وقت میں انتخابات کروانے کی سفارش کی ہے۔

رپورٹ کی بنیاد پر پارلیمان میں بل پیش کرکے پاس کر لیا گیا۔

بیشتر تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ایک ہی بار الیکشن کرانے سے ملک کا پیسہ تو بچ سکتا ہے، مگر کیا علاقائی جماعتیں بی جے پی کی انتخابی یلغار سے بچ سکتی ہیں؟ یہ کہنا قبل از وقت ہے۔

ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق 2019 کے پارلیمانی انتخابات پر 400 ارب روپے خرچ کیے گئے تھے، اور اسے دنیا کا مہنگا ترین الیکشن بتایا گیا تھا۔

حالیہ انتخابات میں اپوزیشن کے مقابلے میں بی جے پی نے سب سے زیادہ انتخابی اخراجات پر پیسہ پانی کی طرح بہایا ہے، بلکہ بعض امیدواروں کے گھروں سے روپے کے بنڈل دستیاب کر دیے گئے تھے۔

اپوزیشن نے سوال اٹھایا کہ جو حکومت ایک ریاست میں پانچ یا چھ مرحلوں میں انتخابات کرواتی رہی ہے، وہ پورے ملک میں بیک وقت پارلیمان اور ریاستوں کے انتخابات کرانے کی اہل کیسے بن گئی ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھر، جو اس کے لیے پولنگ عملہ، مشینیں اور انتخابی ڈھانچہ چاہیے، کیا اس کی قیمت کا کچھ اندازہ لگایا گیا ہے یا پھر بی جے پی محض آئین میں ترمیم کرکے اپنے اس ایجنڈے پر قائم ہے جو وہ آئین کو توڑنے اور وفاق پر ضرب لگانے کا منصوبہ بنا چکی ہے؟

قانون بننے سے پہلے 28 ریاستوں میں سے تقریباً آدھی ریاستوں کو اس قانون کی اپنی اسمبلیوں سے توثیق کرانی ہوگی، جو بی جے پی کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے، کیونکہ اس کی اتحادی جماعتیں بھی ’ایک ملک، ایک انتخابات‘ کے حق میں نظر نہیں آتیں۔

پھر، اس کو پاس کرانے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے، جو بی جے پی دوسری چھوٹی جماعتوں کو بہلا کر حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔

قانونی ماہرین اعتراض کر رہے ہیں کہ اگر حکومت کسی بھی ریاستی حکومت کو گرا کر وہاں صدر راج یا گورنر راج نافذ کرنا چاہتی ہے تو ان ریاستوں کو انتخابات کا انتظار تب تک کرنا پڑے گا جب تک پورے ملک کے لیے انتخابی تاریخ مقرر کی گئی ہوگی، چاہے وہ دو سال ہو یا پانچ سال۔

ایسا 60 اور 70 کی دہائی میں کئی بار ہوا ہے، جب ریاستی حکومتوں کو گرا کر کئی برسوں تک بغیر جمہوری حکومتوں کے رکھا گیا تھا، اور اس وقت کانگریس کی سرکار پر کافی تنقید ہوتی رہی تھی کہ وہ وفاقی نظام کو مضبوط کرنے کے بجائے اسے کمزور کرنے پر لگی ہوئی ہے۔

وفاق کو مضبوط کرنے اور ریاستوں کو مزید اختیارات دینے سے متعلق ماضی میں سَرکاریہ کمیشن بنایا گیا تھا، لیکن اس کی سفارشات کاغذوں کی تہوں میں قید رہ گئیں۔

کانگریس کہتی ہے کہ بی جے پی اس قانون کی بدولت آئین میں کسی طرح بھی چھیڑ چھاڑ شروع کرنا چاہتی ہے تاکہ ملک میں غیر جمہوری نظام لا کر عوام کے حقوق سلب کرکے عامرانہ نظام کی بنیاد ڈالی جا سکے۔

کووند رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف نئی ووٹنگ مشینوں کی خرید پر تقریباً 93 ارب کی رقم درکار ہوگی، جبکہ معیشت کے ماہرین کے مطابق اس کی بدولت ملک کے جی ڈی پی میں ڈیڑھ فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔

بی جے پی نے اڈانی اور امبانی سے توجہ ہٹا کر، جو پارلیمان میں اہم موضوعِ بحث اور ٹکراؤ کا باعث بن گئے تھے، اور اپوزیشن نے اس کو ترجیح بنا کر بات کرنے پر زور دیا تھا، ’ایک ملک، ایک انتخاب‘ بل لا کر میڈیا کی توجہ چالاکی سے دوسری جانب مبذول کر دی۔

بعض رپورٹوں کے مطابق بیشتر چینلز کو اسی موضوع پر بحث کرنے کی ہدایت دی گئی ہے تاکہ اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جانے والے آئین شکنی، ہندو مسلم بھڑکاؤ نفرت اور اڈانی معاملات سے عوام کی توجہ ہٹائی جا سکے، جو پارلیمان میں اپوزیشن اور حکمران جماعت کے بیچ خاصا ٹکراؤ کا باعث بنے ہیں۔

بی جے پی کی تیسری مدت کی اس سرکار کو احساس ہے کہ اس بار وہ اتنی طاقت میں نہیں کہ قلم کی ایک جنبش سے آئین کی شقیں اڑا سکے، جیسا کہ پچھلی حکومت نے جموں و کشمیر کی اندرونی خودمختاری ختم کرتے وقت کیا تھا۔

آج اس کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے، اور اپوزیشن بھی اتنی ڈری اور سہمی ہوئی نہیں ہے، جنہیں تحقیقاتی ادارے مختلف معاملات میں پھنسا کر الجھا کر ہراساں کرتے رہے ہیں۔

پارلیمان کی تکرار محض لفظی جنگ تک محدود نہیں ہے، بلکہ اب اپوزیشن اور حکمران جماعت کے اراکین ہاتھا پائی پر پہنچ گئے ہیں، جس کی ویڈیوز آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر