تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے عیسوی سال سے 1000 عیسوی تک ہندوستان غالب عالمی اقتصادی طاقت تھا، جس کا پہلی صدی میں عالمی جی ڈی پی کا 32.9 فیصد اور 11ویں صدی میں 28.9 فیصد حصہ تھا۔
آج انڈیا ایک اہم اقتصادی طاقت کے طور پر اپنی پوزیشن دوبارہ حاصل کرنے کے لیے تیار ہے۔ جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت اور خریداری کی طاقت کی برابری (پی پی پی) کے لحاظ سے تیسری سب سے بڑی معیشت انڈیا نے گذشتہ دو دہائیوں کے دوران قابل ذکر ترقی کا مظاہرہ کیا ہے۔
تیزی سے پھیلتی ہوئی معیشت، بڑھتے ہوئے متوسط طبقے اور ایک اہم آبادیاتی فائدہ کے ساتھ، انڈیا آج عالمی اقتصادی منظر نامے کو نئی شکل دینے میں خود کو ایک مرکزی کھلاڑی کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ ای گورننس، فن ٹیک اختراعات اور ایک مضبوط سٹارٹ اپ ایکو سسٹم کے ذریعے 10 کھرب ڈالر کی ڈیجیٹل معیشت حاصل کرنے کے ہدف کے ساتھ ملک ٹیکنالوجی، سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ اور ڈیجیٹل تبدیلی میں رہنما بن گیا ہے۔
’میک ان انڈیا،‘ ’ڈیجیٹل انڈیا،‘ اور ’گتی شکتی‘ جیسے بنیادی ڈھانچے کے پروگرام کاروبار، جدت اور اختراع کو بڑھا رہے ہیں۔ عالمی سپلائی چین میں تبدیلیوں اور جغرافیائی سیاسی تناؤ کی وجہ سے انڈیا کی بحالی اب ایک ٹھوس حقیقت ہے، جس میں ملک اپنے معاشی تسلط کو مستحکم کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
انڈیا کی تیز رفتار اقتصادی ترقی خطے میں خوشحالی کا اشارہ دیتی ہے، لیکن یہ خطے کے لیے کئی خدشات بھی پیدا کرتی ہے۔
جنوبی ایشیا کی بڑی معیشت کے طور پر انڈیا خطے میں تجارت اور سرمایہ کاری میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس سے چھوٹے ممالک کو بڑے بازار تک رسائی ملتی ہے لیکن اس کے نتیجے میں اقتصادی انحصار بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ممالک تجارت، سرمایہ کاری اور وسائل کے لیے انڈیا پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ انڈیا کی برآمدات اپنے ہمسایہ ممالک کو اکثر ان ممالک سے درآمدات سے بہت زیادہ ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں تجارتی خسارے پیدا ہوتے ہیں جو تجارتی عدم توازن کو جنم دیتے ہیں اور ایک غیر متوازن اقتصادی تعلق قائم ہوتا ہے، جس سے غیر منصفانہ تحفظ پسند تجارتی پالیسیوں پر خطے میں کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چونکہ چھوٹے ممالک انڈیا کی معیشت پر ان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے انحصار کر رہے ہیں، اس کے نتیجے میں کروڑوں غریب مزدوروں کا استحصال ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جو تنگ و تاریک فیکٹریوں میں کام کر رہے ہیں۔ انڈیا کا سرمایہ دارانہ وژن اسے زیادہ عالمی بنانے کی طرف لے آیا ہے، جہاں یہ عدم مساوات کو چھو رہا ہے۔
اجرتوں میں کمی، موت کے جال والی فیکٹریاں اور بدبودار کچی آبادیاں سرمایہ دارانہ انڈیا کے جبر کے طریقوں کی عکاسی کرتی ہیں۔
انڈیا کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت سیاسی طاقت میں بھی تبدیل ہوتی ہے، جو جنوب ایشیائی چھوٹے ممالک پر دباؤ ڈال سکتی ہے کہ وہ انڈیا کی علاقائی اور عالمی پالیسیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔ انڈیا کا جنوبی ایشیا کی علاقائی تنظیموں جیسے سارک میں بڑھتا ہوا اثر چھوٹے ممالک کے مفادات کو حاشیے پر ڈال سکتا ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جیسے افغانستان، نیپال یا سری لنکا، جہاں انڈیا کی پالیسیوں کا ان کی خود مختاری پر اثر پڑ سکتا ہے۔
انڈیا کی اقتصادی پالیسیوں کو یکطرفہ طور پر علاقائی اقدامات میں ڈھالنے کی صلاحیت چھوٹے ممالک کو مایوس کر سکتی ہے، جن کے خدشات کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اگرچہ انڈیا کی ’پڑوسی پہلے‘ پالیسی کے تحت جنوبی ایشیا میں بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کا مقصد رابطے میں بہتری لانا ہے، لیکن اس سے اکثر و بیشتر انڈیا پر انحصار میں اضافہ ہو جاتا ہے، جس سے نیپال اور سری لنکا جیسے ممالک کی خودمختاری محدود ہو جاتی ہے۔
کشیدگی کی ایک اور بڑی وجہ پانی کے تنازعات ہیں، کیونکہ انڈیا کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ کئی دریا مشترک ہیں۔ ڈیموں کی تعمیر اور اقتصادی ترقی کے لیے دیگر بنیادی ڈھانچے کی ترقی نے پانی کے استعمال کے حوالے سے خدشات پیدا کیے ہیں، خاص طور پر بنگلہ دیش، نیپال، اور پاکستان کے ساتھ، جہاں زراعت کا انحصار پانی کے وسائل پر ہے۔ انڈیا کا اپنے وسائل کی ضروریات کو ترجیح دینا ان مشترکہ وسائل پر کشیدگی کو بڑھا دیتا ہے۔
جب انڈیا بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کے منصوبے تیار کرتا ہے، جیسے کہ توانائی کی پائپ لائنیں یا نقل و حمل کے نیٹ ورک، تو وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں اپنی ضروریات کو ترجیح دے سکتا ہے۔
تیز صنعتی انقلاب اور شہر کاری کی خواہش نے ماحولیاتی چیلنج پیدا کیے ہیں، جن میں فضائی آلودگی، جنگلات کی کٹائی اور موسمیاتی تبدیلی شامل ہیں، جو انڈیا کے ساتھ ساتھ سرحد پار اثرات مرتب کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر انڈیا سے پھیلنے والی فضائی آلودگی پاکستان، نیپال اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کو متاثر کر سکتی ہے، جبکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات جیسے بدلتی ہوئی مون سون کی بارشیں اور سمندری سطح میں اضافہ پورے جنوب ایشیائی خطے کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
انڈیا جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسیں بھی خارج کرتا ہے، جس کی وجہ سے ہمسایہ ممالک متاثر ہو سکتے ہیں اور آئندہ چل کر اس سے خطے کے عدم استحکام میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نقل مکانی میں اضافہ ہوتا ہے اور سرحدی کنٹرول، وسائل اور سماجی ہم آہنگی پر کشیدگیاں بڑھتی ہیں۔
اس کے علاوہ، انڈیا کی بڑھتی ہوئی اقتصادی حیثیت نے اسے چین کا ایک اسٹریٹجک متبادل بنا دیا ہے، عالمی سپلائی چینز کو منتقل کر دیا ہے اور علاقائی اتحادوں کو کشیدہ کر دیا ہے۔ اس کی بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیتیں ہمسایہ ممالک جیسے پاکستان اور چین کے ساتھ اسلحے کی دوڑ کے خطرے کو بڑھا رہی ہیں، جو خطے میں سکیورٹی کے خدشات کو بڑھا رہى ہیں۔ چھوٹے ممالک ممکنہ طور پر جغرافیائی سیاسی دباؤ کے تحت تنازعات میں شامل ہو سکتے ہیں۔
خطے کی مشترکہ تاریخ، ثقافتی تعلقات اور جغرافیائی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے، انڈیا کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت علاقائی تعاون کے لیے متعدد مواقع فراہم کرتی ہے، تاہم یہ مواقع اس بات پر منحصر ہیں کہ ہمسایہ ممالک انڈیا کی اقتصادی توسیع کو اپنے فائدے کے لیے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔
انڈیا کی آبادی دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے یعنی 1.4 ارب سے زیادہ۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک وسیع صارف مارکیٹ ہے۔ جنوب ایشیائی ممالک جیسے سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ انڈیا کو اپنی برآمدات بڑھا سکتے ہیں، خاص طور پر ٹیکسٹائل، زراعت، الیکٹرانکس اور دست کاری جیسے شعبوں میں۔ تجارتی تعلقات کو مستحکم کرنے سے یہ ممالک انڈیا کی بڑھتی ہوئی متوسط طبقے کی مانگ سے فائدہ اٹھا سکیں گے اور یورپ یا امریکہ جیسے روایتی بازاروں پر انحصار کم کر سکیں گے۔
انڈیا کی جنوبی ایشیا کے فری ٹریڈ ایریا (SAFTA) جیسے علاقائی ڈھانچوں میں شرکت تجارتی تعلقات کو فروغ دے سکتی ہے، جس سے ٹیرف میں کمی اور اقتصادی انضمام کو بڑھاوا ملے گا۔ انڈیا جنوبی ایشیا میں مزید جامع تجارتی معاہدوں کے لیے رہنمائی کر سکتا ہے، جس سے علاقائی تجارت کی حدود ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
انڈیا کی اقتصادی ترقی اس کی ’میک اِن انڈیا‘ مہم کو بھی بڑھاتی ہے، جو خاص طور پر بنیادی ڈھانچے، مینوفیکچرنگ اور ٹیکنالوجی میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی مانگ پیدا کرتی ہے۔ ہمسایہ ممالک انڈین سرمایہ کاری کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں، خاص طور پر دواسازی، آئی ٹی اور زرعی پروسیسنگ جیسے شعبوں میں، اس سے مشترکہ منصوبوں کی تخلیق ہو گی، جو نوکریاں پیدا کریں گے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی میں مدد کریں گے۔ یہ انضمام خطے کو عالمی سرمایہ کاروں کے لیے مزید مقابلے کے قابل اور پر کشش بنائے گا۔
انڈیا کی علاقائی رابطے کو بڑھانے کی کوششیں، جیسے بنگلہ دیش-بھوٹان-انڈیا-نیپال (BBIN) منصوبہ، تجارتی راستوں اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ انڈیا کی توانائی کے شعبے میں تعاون کی کوششیں، جیسے سرحد پار توانائی گرڈ، خاص طور پر توانائی کی کمی والے ممالک جیسے نیپال اور بنگلہ دیش کے لیے مشترکہ فوائد فراہم کرتی ہیں۔ انڈیا کی کمپنیاں ہمسایہ ممالک میں بندرگاہوں کی ترقی میں بھی حصہ لے رہی ہیں، جیسے میانمار کی ستوے بندرگاہ اور ایران کی چابہار بندرگاہ (جو انڈیا کے ذریعے رسائی حاصل کرتی ہے)، جو خشکی میں گھرے ممالک جیسے نیپال اور بھوٹان کے درمیان تجارت کو آسان بنا سکتی ہیں۔
چھوٹے ممالک جیسے سری لنکا اور مالدیپ بھی انڈیا کے ساتھ مل کر چین جیسی عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، تاکہ اقتصادی امداد، دفاعی معاونت اور سفارتی حمایت حاصل کی جا سکے۔
انڈیا کے توسیعی عزائم تیز تر ہو رہے ہیں کیونکہ وہ عالمی سطح پر زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ انڈیا 2047 تک ایک عالمی اقتصادی سپر پاور بن جائے گا، جو اس کے ’امرِت کال‘ کے وژن پر منحصر ہو گا۔
انڈیا میں سٹارٹ اپس کی تعداد بڑھ رہی ہے، خاص طور پر ٹیکنالوجی اور فِن ٹیک کے شعبوں میں۔ انڈین کمپنیوں کے ساتھ تعاون جنوب ایشیائی ممالک کو نئی اختراعات اور ٹیکنالوجی کے ٹولز متعارف کروا سکتا ہے جو انہیں روایتی ترقیاتی مراحل جیسے مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل ادائیگیوں اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ میں تیز تر ترقی کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
انڈیا کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مضبوط ثقافتی اور مذہبی تعلقات اقتصادی اور سماجی روابط کو مزید مستحکم کر سکتے ہیں۔ نیپال، بنگلہ دیش، پاکستان اور سری لنکا جیسے ممالک میں انڈین تارکین وطن بھی تجارت، ترسیلات زر اور کاروباری روابط کو سہولت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
انڈیا کے توسیعی عزائم تیز تر ہو رہے ہیں کیونکہ وہ عالمی سطح پر زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ انڈیا 2047 تک ایک عالمی اقتصادی سپر پاور بن جائے گا، جو اس کے ’امرِت کال‘ کے وژن پر منحصر ہو گا۔
جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے کے ناطے، انڈیا علاقائی ترقی کے لیے اہم مواقع فراہم کرتا ہے، خاص طور پر تجارت، سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں، تاہم ان مواقع کو حقیقت میں بدلنے کے لیے سیاسی، سفارتی اور بنیادی ڈھانچے سے متعلق چیلنجوں کو عبور کرنا ضروری ہے۔ جنوب ایشیائی ممالک کو انڈیا کی ترقی سے فائدہ اٹھانے کے لیے تعاون کرنا ہو گا، جبکہ اس پر زیادہ انحصار سے بچنا بھی ضروری ہو گا۔
انڈیا کے ساتھ تعلقات کو متوازن رکھنا اور خود مختاری کو برقرار رکھنا ان ممالک کے لیے ضروری ہو گا۔ اس کے علاوہ انڈیا کو اپنے ہمسایہ ممالک کے خدشات کو حل کرنا ہو گا تاکہ اس کی ترقی پورے خطے کے لیے فائدہ مند ہو اور عدم مساوات میں مزید اضافہ نہ ہو۔
زنیرہ خان نے انٹیلی جنس اور سکیورٹی سٹڈیز میں ماسٹرز کیا ہے اور وہ انسداد دہشت گردی اور جدید دنیا کو درپیش نئے خطرات کی تجزیہ کار ہیں۔ انہوں نے برطانیہ کی وزارتِ دفاع کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔