’حتمی مطالبات کے لیے اپوزیشن کو عمران سے ملنے کی ضرورت ہے‘

سپیکر ایاز صادق نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ’اپوزیشن کے دوستوں نے کچھ مطالبات کا ذکر ضروری کیا، مگر ان کو اپنے چیئرمین کے ساتھ ایک اور ملاقات کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور دو جنوری 2025 کو اسلام آباد میں ہوا (پی آئی ڈی)

قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے جمعرات کی شب حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ اپوزیشن کو اپنے چیئرمین سے ملاقات کی ضرورت ہے۔

حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کا دوسرا دور جمعرات کو ہوا جس کے بعد ایاز صادق نے ایک بیان میں کہا کہ آئندہ ہفتے اسی طرز پر مذاکرات کا تیسرا دور ہو گا۔

سپیکر ایاز صادق نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ’اپوزیشن کے دوستوں نے کچھ مطالبات کا ذکر ضروری کیا، مگر ان کو اپنے چیئرمین کے ساتھ ایک اور ملاقات کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تاکہ وہ ایک حتمی فہرست لے کر آئیں۔ امید ہے اگلے ہفتے مذاکرات کا تیسرا دور ہو گا۔‘

سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمان کے کمیٹی روم نمبر پانچ جسے کونسٹی ٹیوشن روم بھی کہا جاتا ہے، میں ہونے والے اس اجلاس کا پہلا وقت دن ساڑھے 11 بجے تھا، جسے گذشتہ روز تبدیل کر کے ساڑھے تین بجے کر دیا گیا۔ اس تبدیلی کی وجہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی ممکنہ شرکت ہے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے اس اجلاس میں اسد قیصر، صاحبزادہ حامد رضا اور راجہ ناصر عباس کے علاوہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب، سلمان اکرم راجہ اور حامد خان کی شرکت بھی متوقع ہے۔ ابتدائی طور پر یہ کمیٹی دو مطالبات سامنے رکھے گی۔

پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ دو مطالبات انڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کی رہائی اور نو مئی و 26 نومبر کو ہونے والے واقعات کی تحقیقات کے لیے سینیئر ترین ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کی تشکیل شامل ہے۔ ان مطالبات کو بڑھا کر زیادہ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا انحصار پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان پر ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل پی ٹی آئی نے دو کے بجائے چار مطالبات رکھے تھے جن میں ’انتخابات میں چوری کیے گئے مینڈیٹ، جمہوریت کی بحالی، 26ویں آئینی ترامیم کا خاتمہ اور بے گناہ سیاسی قیدیوں کی رہائی‘ شامل تھے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے اس سوال پر کہ کیا پی ٹی آئی نے اسٹیبلشمنٹ یا حکومت کی جانب سے کسی عندیے کے بعد ان مطالبات کو تبدیل کیا ہے؟ اسد قیصر نے جواب دیا: ’ہم مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں، ذاتی مفاد کے بجائے ملک کی خاطر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت ان مطالبات کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔ ہمارے مطالبات ایسے نہیں جو پورے نہ ہو سکیں۔‘

مطالبات

پی ٹی آئی نے عمران خان کی رہائی، نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور عمران خان سے ملاقات کی شرط بھی رکھی ہے۔ 

پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین مذاکرات جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہونے والے اجلاس میں ہوئے جس کے بعد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا۔

پی ٹی آئی نے حکومت کو تحریری طور پر مطالبات تحریری طور پر دینے کے لیے مہلت مانگنی ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں تحریک انصاف نے عمران خان سمیت پارٹی کے دیگر رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ حکومت ضمانتوں کے حصول میں حائل نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان سے ملاقات کے بعد آئندہ اجلاس میں تحریری طور پر چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا جائے گا۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان اگلا اجلاس آئندہ ہفتے ہو گا جس کی تاریخ کا تعین بعد میں کیا جائے گا۔

حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اسحاق ڈار نے کہا کہ ’ہمیں پی ٹی آئی رہنماؤں کی عمران خان سے رہنمائی حاصل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔‘

’پی ٹی آئی اپنے مطالبات پیش کرے تاکہ فریقین خوش اسلوبی سے معاملات کو آگے بڑھا سکیں۔ ہمیں توقع تھی کہ آج گذشتہ اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کے مطابق پی ٹی آئی آج اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کرے گی۔‘

جہاں پی ٹی آئی ان مذاکرات کو لے کر بظاہر متحد ہے، وہیں دوسری جانب حکومتی جماعت مسلم لیگ ن سے اس کے حق اور مخالفت میں مختلف آوازیں سامنے آئی ہیں۔

ان مذاکرات کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ اور کیا عمران خان کو ان مذکرات کے پیش نظر کوئی ریلیف مل سکے گا؟ انڈپینڈنٹ اردو نے ان سوالوں کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔

سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی سلمان غنی نے کسی بھی قسم کے ریلیف کو ’اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی‘ سے مشروط کیا ہے۔

انہوں نے کہا: ’ان مذاکرات میں بڑے بریک تھرو کا امکان تو ہے لیکن سیاسی قیادت کا بیٹھنا ہی مسئلہ ہوتا ہے۔ ماضی میں ڈیڈ لاک ایک خاص مائنڈ سیٹ کی وجہ سے تھا اور اب بھی وہی مائنڈ سیٹ ہے۔ مذاکرات میں پیش رفت کے حوالے سے خطرہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک غیر یقینی کی کیفیت ہے۔ ‘

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پر بیرونی پریشر بھی ہے۔

بقول سلمان غنی: ’جہاں تک مذاکرات کی نتیجہ خیزی کا سوال ہے تو فی الحال اس حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس کا انحصار دونوں کے طرز عمل پر ہوگا، کوئی فریق یہ نہیں چاہے گا کہ ذمہ داری ان پر آئے، البتہ بڑا سوال یہ ہوگا کہ دونوں ایک دوسرے کو کچھ دینے کی پوزیشن میں ہوں گے، اس حوالے سے انحصار تیسری پارٹی اسٹیبلشمنٹ پر ہوگا، کیونکہ حکومت انہیں اعتماد میں لیے بغیر کچھ یقین دہانی نہیں کروا سکے گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ویسے بھی اصل فریقین حکومت نہیں، پی ٹی آئی اور اسٹبلشمنٹ ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق تو اسٹیبلشمنٹ نو مئی پر لچک دینے کو تیار نہیں ہے اور اگر پی ٹی آئی کو کچھ ملے گا نہیں تو پھر مذاکرات کیسے نتیجہ خیز ہوں گے؟ لہذا کہا جا سکتا ہے کہ دونوں پارٹیوں میں معاملات اس وقت نتیجہ خیز ہوں گے جب تیسری پارٹی لچک دے گی اور اگر وہ لچک نہیں دیں گے تو پھر عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو ریلیف کیسے مل سکتا ہے۔‘

سیاست اور خارجہ امور پر نظر رکھنے والے صحافی اعجاز احمد سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین ہونے والے مذاکرات ’بے نتیجہ‘ ختم ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اور پی ٹی آئی یہ واضح کر چکی ہے کہ انہیں ایسا کوئی ریلیف نہیں چاہیے، جس سے ڈیل کا تاثر ہو اور ریلیف ملنے کا امکان اس لیے بھی نظر نہیں آ رہا کیونکہ یہ معاملہ حکومت کے بس میں نہیں ہے۔

اعجاز احمد کے خیال میں یہ مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوں گے کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے رکھے گئے مطالبات میں قانونی پیچیدگیاں بھی ہیں۔ جہاں ایک طرف پی ٹی آئی یہ مذاکرات آج کمیٹی کے سامنے رکھنے جا رہی ہے، وہیں سنی اتحاد کونسل کے سربراہ اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ رکن قومی اسمبلی حامد رضا نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں انسپیکٹر جنرل اسلام آباد کو تفصیلات کے ساتھ طلب کر رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی اور حکومت دونوں ایک دوسرے کو دیوار کے ساتھ لگانا چاہتی ہے۔ حکومت پی ٹی آئی کو سیاسی سپیس تو دے سکتی ہے اور کچھ نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پی ٹی آئی کو فیلڈ میں بطور سیاسی جماعت دیکھنا چاہتی ہے تاہم اس وقت جب عمران خان کا اس پر وہ کنٹرول نہ رہے جیسا اس وقت ہے۔‘

اس سوال پر کہ کیا یہ مذاکرات کسی بیرونی دباؤ کے تحت کیے جا رہے ہیں؟ اعجاز احمد نے بتایا کہ ان کے خیال میں ’ایسا نہیں ہے۔ یورپی یونین نے فوجی عدالتوں کا مسئلہ اٹھایا ہے نہ کہ عمران خان کا۔‘

بقول اعجاز احمد: ’عمران خان کی جیل سے واپسی کسی بڑی قیمت کے بغیر ناممکن ہے، فوج کے مطالبے کے مطابق وہ معافی مانگ لیں تو کچھ ہو سکتا ہے، لیکن ایسا کرنے سے ان کا سیاسی کیریئر مکمل طور پر ختم ہو سکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست