وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ خان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ مذاکرات کے بعد جمعرات کو کہا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے دو کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ وہ مینڈیٹ کی واپسی کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اپوزیشن کے تحریری مطالبات کا جواب دینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی۔
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور جمعرات کو ہوا جس میں حزب اختلاف کی مذاکراتی کمیٹی نے دو انکوائری کمیشن بنانے اور دیگر مطالبات تحریری طور پر جمع کروائے ہیں۔
پی ٹی آئی سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی کے رکن رانا ثنا اللہ نے سینیٹر عرفان صدیقی کے ساتھ مشترکہ پریس بریفنگ میں کہا کہ وزیراعظم کی تشکیل دی گئی کمیٹی میں تمام اتحادی اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہے جب کہ حکومتی کمیٹی کا مطالبات پر دیا گیا جواب حتمی ہوگا۔
وزیراعظم کے سیاسی مشیر نے کہا کہ اپوزیشن کے دو بنیادی مطالبات ہیں، ایک مینڈیٹ کی واپسی، جس سے وہ دستبردار ہوگئے ہیں اور آج انہوں نے نئے انتخابات کے حوالے سے کوئی مطالبہ نہیں کیا۔
رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ تمام مقدمات سیاسی طور پر بنائے گئے ہیں، جس پر ان سے ایف آئی آرز کی تفصیلات فراہم کرنے کا کہا گیا کہ کون سے سیاسی کارکنوں کے خلاف مقدمات بنائے گئے ہیں لیکن انہوں نے ایسی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
پی ٹی آئی کے تحریری مطالبات
سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سہولت کاری میں آج پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے مذاکرات کے تیسرے دور میں پی ٹی آئی کے رہنما عمر ایوب نے انہیں تحریری مطالبات پیش کیے تھے۔
تحریک انصاف کی طرف سے دو انکوائری کمیشن کی تشکیل دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ وفاقی حکومت عدالت عظمٰی کے چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل دو کمیشن آف انکوائری تشکیل دے۔
مطالبات میں کہا گیا کہ کمیشن پی ٹی آئی کے بانی کی نو مئی 2023 سے متعلق گرفتاری کی انکوائری کرے جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں رینجرز اور پولیس کے داخلے کی انکوائری کے علاوہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی واقعات کی سی سی ٹی وی ویڈیو کے ذریعے تحقیقات کی جائیں۔
جبکہ دوسرا کمیشن 24 سے 27 نومبر2024 کے واقعات کی تحقیقات کرے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ تحریک انصاف آٹھ فروری 2024 کے انتخابات کو ’دھاندلی زدہ‘ قرار دیتی رہی ہے لیکن اپنے تحریک مطالبات میں پی ٹی آئی کی طرف سے اس بارے میں کوئی مطالبہ نہیں رکھا گیا ہے۔
مذاکرات میں شامل پی ٹی آئی کے ایک مرکزی رہنما اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اگر بات چیت کے اس عمل سے متعلق شک و شبہات ہوتے تو وہ اس کا حصہ ہی نہ بنتے۔
انہوں نے کہ جب کھلے عام مذاکرات ہو رہے ہیں تو بیک ڈور مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔
فریقین نے ملک میں سیاسی جمود کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا تھا جس کے اس سے قبل دو دور ہو چکے ہیں لیکن ان میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔
حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات تحریری صورت میں پیش کرے جو اب کر دیے گئے ہیں۔
بانی چیئرمین سے ملاقات کے بعد حکومت سے مذاکرات آگے بڑھیں گے: عمر ایوب
مذاکرات کے بعد قومی اسمبلی میں اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمر ایوب خان نے کہا کہ ’حکومت نے سات روز کے اندر مذاکرات کا تحریری جواب دینا ہے، انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کروائی جائے گی۔ حکومت بتائے گی، اس کے بعد ہی مذاکرات آگے بڑھیں گے۔‘
پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے تمام سٹیک ہولڈرز کو بیٹھ کر معاملات آگے بڑھانے کا کہا۔ ان کا کہنا تھا: ’صوبہ خیبر پختونخوا میں اس وقت جو صورت حال چل رہی ہے اسے کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ہماری کابینہ نے منظور کیا تھا کہ ہماری ٹرانسپورٹ افغانستان سے ہوتے ہوئے روس تک جائے گی، یہ معاہدہ پی ٹی آئی دور حکومت میں ہو چکا تھا۔‘
اسد قیصر نے صوبے کی صورت حال پر مزید بات کرتے ہوئے کہا: ’خیبر پختونخوا کو 40 سال جنگوں میں دھکیلے رکھا گیا، جو بھی مسائل ہیں وہ ٹیبل پر بیٹھ کر حل کیے جائیں، جذبات سے کام نہیں چلے گا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ تمام معاملات حل کیے جائیں۔‘
محمود اچکزئی نے کہا کہ وہ تمام اداروں سے درخواست کرتے ہیں کہ پاکستان کو بچانے کے لیے ایک صف میں کھڑے ہو جائیں۔ ’ہمارے لوگ، ادارے آئین کے ساتھ چلیں گے تو ہم کھڑے ہیں، جو آئین کے خلاف ہیں، ہم ان کے خلاف کھڑے ہوں گے۔‘