جوڈیشل ریفارمز پر مشتمل 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت نئے تشکیل دیے گئے جوڈیشل کمیشن نے اسلام آباد اور بلوچستان ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کی منظوری دی ہے، جن میں سے دو جج اسلام آباد ہائی کورٹ اور تین بلوچستان ہائی کورٹ میں تعینات ہوں گے۔
نئی تقرریوں کی منظوری کا وکلا نمائندوں نے خیر مقدم کرتے ہوئے اس اضافے کو آئین و قانون کی بالادستی اور انصاف کی میرٹ پر فراہمی کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے سابق سیشن جج محمد اعظم خان اور سینیئر وکیل انعام امین منہاس کی نامزدگی جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ میں تین وکلا محمد آصف، محمد ایوب خان اور محمد نجم الدین مینگل کو تعینات کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جمعے کو جاری ہونے والے ایک اعلامیے کے مطابق: ’چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے کثرت رائے سے اسلام آباد اور بلوچستان ہائی کورٹس میں مجموعی طور پر پانچ ایڈیشنل ججوں کی تعیناتی کی منظوری دی۔‘
سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد حسین شاہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے نامزد ججوں کی تعیناتی کا خیرمقدم کیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’پارلیمنٹ کی جانب سے تشکیل دیے گئے جوڈیشل کمیشن کے تحت اتفاق رائے سے اعظم خان اور انعام امین منہاس کی منظوری میرٹ پر دی ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے 14 نام بھجوائے تھے جن میں سے چار نامزدگیوں کی منظوری ہونا تھی، لہذا دو کو نامزد کیا گیا۔ دونوں نامزد جج غیر جانبدار اور پیشہ ورانہ انداز میں اپنے فرائض نبھاتے رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امجد حسین شاہ کے بقول: ’اسلام آباد ہائی کورٹ میں نامزد ہونے والے انعام امین منہاس بنیادی طور پر پیشہ ور وکیل ہیں۔ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔
’اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ کے خلاف جب منشیات کیس بنا تھا تو انعام امین منہاس اینٹی نارکوٹکس کی جانب سے پراسیکیوٹر تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت نے یہ تعیناتی میرٹ پر کی ہے کیونکہ ان پر کمیشن میں کسی رکن نے اعتراض نہیں کیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’انعام امین کافی متحرک وکیل ہیں۔ میں ذاتی طور پر انہیں جانتا ہوں۔ ان کا تعلق بھی اسلام آباد سے ہے اور وکالت کی ڈگری لینے کے بعد انہوں نے یہیں سے وکالت شروع کی۔ یہیں سے وکلا سیاست میں کردار بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ بار اور بینچ کے درمیان بہتر تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ امید ہے آئندہ بھی وہ قانون و انصاف کے تحت کام کرتے رہیں گے۔‘
امجد شاہ کے مطابق ’اسلام آباد ہائی کورٹ میں نامزد دوسرے جج محمد اعطم خان کا بنیادی طور پر تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔ انہوں نے سول جج اسلام آباد سے کیریئر کا آغاز کیا اور احسن طریقے سے ذمہ داریاں ادا کرتے رہے ہیں۔
’وہ مرحلہ وار ترقی کرتے ہوئے سیشن جج اسلام آباد بنے، لہذا انہیں بنیادی طور پر اندازہ ہے کہ عوام، وکلا اور عدلیہ کے کیا مسائل ہوتے ہیں انہیں کس طرح حل کرنا ہوتا ہے۔ انہیں بار میں بااصول اور ایماندار شخصیت کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اعظم خان ججوں کی جانبداری اور کسی کو خلاف قانون سزا وجزا دینے کے سخت خلاف ہیں۔ بطور سیشن جج ان کا وسیع تجربہ ہے، جس کا فائدہ یقینی طور پر عدالتی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے ضرور ہوگا۔‘
پاکستان بار کونسل کے رکن منیر کے خان کہتے ہیں کہ بلوچستان ہائی کورٹ میں ججوں کے لیے جن تین ناموں کی منظوری دی گئی ہے، وہ پہلے ہی آئین و قانون کے مطابق کام کرنے والے لوگ ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان سے چار ججوں کی خالی نشستوں کے لیے 11 نام بھجوائے گئے تھے۔ ابھی تین جج تعینات کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’بلوچستان کے حالات دوسرے تمام صوبوں سے مختلف ہیں، لہذا جوڈیشل کمیشن نے جن تین ناموں کی منظوری دی ہے وہ موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے دی گئی ہے۔ تینوں شخصیات کافی تجربہ کار اور صوبے کے حالات کو قریب سے جانتی ہیں۔
’محمد آصف ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان ہیں اور بلوچستان بار کے صدر بھی رہے۔ ان کا تعلق خاران کے قریب ضلع واشک سے ہے، جو ایران بارڈر کے قریب واقع ہے۔ یہ وکالت بھی کرتے رہے اور انہیں نہ صرف بلوچستان بلکہ وکلا اور عدالتی چیلنجز کا بھی ادراک ہے، لہذا ان کی نامزدگی سے صوبے کے عوام کو فائدہ ہو گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’دوسرے نامزد ہونے والے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج ایوب خان کا تعلق ضلع پشین سے ہے، وہ بلوچستان بار کونسل کے رکن بھی رہے ہیں۔ ان کی وکالت کا تجربہ بھی کافی ہے لہذا ان کی نامزدگی پسماندہ علاقوں کے لیے مثبت ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ وہ ان علاقوں کے حالات کو اچھی طرح جانتے ہیں۔‘
منیر کے خان کے مطابق تیسرے نامزد ہونے والے نجم الدین مینگل کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ وہ بلوچستان بار کونسل کے رکن بھی رہے اور ان دنوں بطور ایڈیشنل اٹارنی جنرل فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان کے والد ڈاکٹر صلاح الدین مینگل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان رہے اور پریس کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔ نجم الدین کا بار اور عدلیہ کے حوالے سے بھی آئینی بالادستی کے لیے اہم کردار رہا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ وکلا برادری کے ساتھ مل کر جمہوریت کی مضبوطی اور عدلیہ کی آزادی پر آوازاٹھائی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ نامزد ہونے والے تینوں جج صوبے اور عدلیہ کی بہتری میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔‘
نئے ججوں کی نامزدگی
جمعے کو اسلام آباد میں ہونے والے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کے دو اجلاس منعقد ہوئے۔ پہلے اجلاس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے ایڈیشنل ججوں کی تعیناتیوں پرغور ہوا اور کمیشن کے دوسرے اجلاس میں بلوچستان ہائی کورٹ میں نئے ججوں کی تعیناتیوں کے لیے غور کیا گیا۔
سپریم کورٹ کے کانفرنس روم میں منعقد ہونے والے پہلے اجلاس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد اعظم خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج کے طور پر تعیناتی کی اکثریت سے منظوری ہوئی اور ایڈووکیٹ سپریم کورٹ انعام امین منہاس کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج کی حیثیت سے تعیناتی کی اکثریت سے منظوری دی گئی ۔
جوڈیشل کمیشن کے دوسرے اجلاس میں بلوچستان ہائی کورٹ میں ایڈیشنل ججوں کی تعیناتیوں پرغور ہوا اور اجلاس میں سپریم کورٹ کے تین وکلا محمد آصف، محمد ایوب خان اور محمد نجم الدین مینگل کو متفقہ طور پر بلوچستان ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج تعینات کرنے کی منظوری دی گئی۔
اعلامیے کے مطابق: ’جوڈیشل کمیشن کے دونوں اجلاسوں میں متفقہ طور پر اہم فیصلہ کیے گئے جبکہ مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کرنے والے امیدواروں کو مستقبل میں خالی آسامیوں کے لیے دوبارہ نامزد کیا جا سکتا ہے۔‘
جوڈیشل کمیشن نے مختلف ہائی کورٹس میں مجموعی طور پر 38 خالی اسامیوں کے لیے نامزدگیاں طلب کی ہیں، جن میں سندھ ہائی کورٹ کے لیے 12، اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے چار، لاہور ہائی کورٹ کے لیے 10، پشاور ہائی کورٹ کے لیے نو اور بلوچستان ہائی کورٹ کے لیے تین نام طلب کیے گئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق یہاں کل نو ججوں کی نشستیں ہیں، جن میں سے چار خالی ہونے پر دو نامزدگیاں کی گئی ہیں۔ اسی طرح بلوچستان ہائی کورٹ میں 14ججوں کی گنجائش ہے اور چار خالی آسامیوں میں سے تین پر تعیناتیوں کی منظوری دی گئی ہے۔