کمیٹی چلتے کیسز واپس لے تو عدلیہ کی آزادی تو ختم ہو گئی: جسٹس منصور

سپریم کورٹ میں بینچز کے اختیارات کا مقدمہ سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ایک عدالتی حکم کو انتظامی سطح پر کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر (سہیل اختر/انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ میں بینچزکے اختیارات کا مقدمہ سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’جہاں محسوس ہو فیصلہ حکومت کے خلاف ہو سکتا تو کیس ہی بینچ سے واپس لے لیا جائے، کمیٹی چلتے ہوئے کیسز واپس لے تو عدلیہ کی آزادی تو ختم ہو گئی۔‘

سپریم کورٹ میں ٹیکس اور بینچز کے دائرہ اختیار کیس گذشتہ ہفتے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سنا اور فریقین، اٹارنی جنرل سے بینچ کے دائرہ اختیار سے متعلق معاونت طلب کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کی گئی تھی لیکن پیر کو بینچ کی تبدیلی پر جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل سپریم کورٹ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا تھا۔

منگل (21 جنوری) کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ رجسٹرار عدالت کے سامنے پیش ہوئے تو عدالت نے استفسار کیا کہ ’بتائیں عدالتی حکم کے باوجود کیس مقرر کیوں نہ ہوا؟‘

رجسٹرار نے عدالت کو بتایا کہ ’یہ کیس آئینی بینچ کا تھا غلطی سے ریگولر بینچ میں لگ گیا تھا۔‘

جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کہ ’اگر یہ غلطی تھی تو عرصے سے جاری تھی اب ادراک کیسے ہوا؟ معذرت کے ساتھ غلطی صرف اس بینچ میں مجھے شامل کرنا تھی، میں اس کیس کو ہائی کورٹ میں سن چکا تھا، پتہ نہیں مجھے اس بینچ میں شامل کرنا غلطی تھی، کیا تھا۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے رجسٹرار سے سوال کیا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اس معاملے پر اجلاس کیسے ہوا، کیا کمیٹی نے خود اجلاس بلایا یا آپ نے درخواست کی؟‘ رجسٹرار سپریم کورٹ نے جواب دیا کہ ’ہم نے کمیٹی کو نوٹ لکھا تھا۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ’جب جوڈیشل آرڈر موجود تھا تو نوٹ کیوں لکھا گیا؟ ہمارا آرڈر بہت واضح تھا کہ مقدمہ کس بینچ میں لگنا ہے، ہمیں وہ نوٹ دکھائیں جو آپ نے کمیٹی کو بھیجا۔‘

رجسٹرار نے کمیٹی کو بھیجا گیا نوٹ پیش کر دیا۔

رجسٹرار آفس کا نوٹ رجسٹرار کے موقف سے متضاد نکلا تو جسٹس منصور نے نوٹ پڑھنے کے بعد نکتہ اٹھایا کہ ’اس نوٹ میں غلطی کا ادراک تو نہیں کیا گیا، اس میں آپ لکھ رہے ہیں 16 جنوری کو ایک آرڈر جاری ہوا ہے، آپ اس آرڈر کی بنیاد پر نیا بینچ بنانے کا کہہ رہے ہیں، آرڈر میں تو ہم نے بتایا تھا کس بینچ میں لگنا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رجسٹرار سپریم کورٹ نے عدالت کو بتایا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے کیس آئینی بینچ کی کمیٹی کو بھجوایا، آئینی بینچز کی کمیٹی نے آئینی ترمیم سے متعلقہ مقدمات 27 جنوری کو مقرر کیے، ترمیم کے بعد جائزہ لیا تھا کہ کون سے مقدمات بینچ میں مقرر ہو سکتے ہیں کون سے نہیں۔‘ 

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’یہ کیس شاید آپ سے غلطی سے رہ گیا لیکن بینچ میں آ گیا تو کمیٹی کا کام ختم، جہاں محسوس ہو فیصلہ حکومت کے خلاف ہو سکتا تو مقدمہ ہی بینچ سے واپس لے لیا جائے، یہ کیس آپ سے رہ گیا اور ہمارے سامنے آ گیا، آخر اللہ تعالی نے بھی کوئی منصوبہ ڈیزائن کیا ہی ہوتا ہے۔‘

جسٹس عقیل عباسی نے بھی اس موقعے پر ریمارکس دیے کہ ’ہمارے کیس سننے سے کم از کم آئینی ترمیم کا مقدمہ تو مقرر ہوا، پہلے تو شور ڈلا ہوا تھا لیکن ترمیم کا مقدمہ مقرر نہیں ہو رہا تھا، ٹیکس کے مقدمے میں کون سا آئینی ترمیم کا جائزہ لیا جانا تھا جو یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ ’جو دستاویزات آپ پیش کر رہے ہیں یہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کا دفاع ہے۔ دفاع میں پیش کیے جانے والے موقف پر عدالت فیصلہ کرے گی کہ درست ہے یا نہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو مقدمہ واپس لینے کا اختیار کہاں سے آیا؟‘

رجسٹرار سپریم کورٹ نے جواب دیا کہ ’کمیٹی مقدمات مقرر کر سکتی ہے تو واپس بھی لے سکتی ہے۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے جواباً انہیں کہا کہ ’یہ تو آپ کو ہم بتائیں گے اس کیس میں کہ وہ اس سے لے سکتی ہے یا نہیں۔‘

عدالتی حکم انتظامی سطح پر کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’مجھے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اجلاس میں شرکت کا کہا گیا تھا، کمیٹی کو بتا دیا تھا کہ جوڈیشل حکم جاری کر چکا، اجلاس میں آنا لازمی نہیں، ایک عدالتی حکم کو انتظامی سطح پر کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔‘

جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ ’ایک مقدمہ سننے سے کیوں اتنی پریشانی ہو گئی کہ بینچ سے مقدمہ ہی منتقل کر دیا گیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا کام کیس پہلی بار مقرر ہونے سے پہلے تک ہے، جب کیس چل پڑے اس کے بعد کمیٹی کا کام ختم ہوجاتا ہے، کہا گیا معاملہ ریسرچر کے پاس چلا گیا ہے۔‘

رجسٹرار نے عدالت کو بتایا کہ ’ریسرچر کا روز ذکر آرہا ہے، یہ ایک شخص نہیں پورا سیل ہے، سپریم کورٹ میں ریسرچ سیل موجود ہے یہ آپ کے علم میں ہے۔‘ 

جسٹس منصور علی شاہ نے رجسٹرار سپریم کورٹ سے کہا کہ ’ہم تو ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کو سننا چاہتے تھے جس نے یہ سب کیا، آپ انتظامی افسر ہیں آپ کو پتہ نہیں اس معاملے میں کیوں لایا جا رہا ہے۔‘

رجسٹرار نے عدالت کو بتایا کہ ’ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل بیماری کے باعث رخصت پر ہیں، جب وہ واپس آئیں گے تو وہ بھی عدالت کو جواب دیں گے۔‘

کوئی تیکھا سوال پوچھیں تو شاید یہ بینچ بھی ختم کر دیا جائے؟

جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے ’ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ موجودہ بینچ کا مستقبل کیا ہو گا، آج مقدمہ سن رہے ہیں ہو سکتا ہے کل یہ بینچ بھی نہ ہو، کوئی تیکھا سوال پوچھیں تو شاید یہ بینچ بھی ختم کر دیا جائے، رجسٹرار صاحب کیا پتا نوٹ لکھ دیں کہ اس بینچ کو ختم کیا جائے، توہین عدالت کے کیس میں ممکنہ احکامات کی جاری کر سکتے ہیں۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’جو کمیٹی آرڈرز اپنے دفاع میں پیش کیے جا رہے ہیں ان کا جائزہ لیں گے۔‘

بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ ’کمیٹی یا ریسرچ افسر صرف نوٹ لکھ سکتا ہے کہ مقدمہ کس بینچ کو جانا چاہیے، کیس آئینی بینچ کے سننے والا ہے یا نہیں تعین کرنا عدالت کا کام ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں آئے روز نارمل اور آئینی بینچز ایک دوسرے کو مقدمات بھجوا رہے ہوتے، کمیٹی کے جاری احکامات کا عدالتی جائزہ لینا ضروری ہے۔

’ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بینچز کے اختیارات کا مقدمہ فل کورٹ میں مقرر کر دیا جائے، یہ عدالت 26ویں ترمیم کے تحت بینچز اختیارات کا مقدمہ فل کورٹ کو بھیج سکتی ہے، ماضی میں جب بھی کسی بینچ نے آرڈر سے بڑے بینچ کے لیے فائل بھیجی اس پر عمل ہوا۔‘

عدالت نے مقدمے کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی اور سوال اٹھایا کہ ’کیا ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کے خلاف جا سکتی ہے؟‘

عدالت نے قانونی سوال پر حامد خان اور منیر اے ملک کو معاون مقرر کر دیا۔ عدالت کی معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان