چین ٹرمپ کے تجارتی حملے کو ہلکا نہیں لے گا

امریکہ نے چین اور ہانگ کانگ سے چھوٹے پیکجز کی ترسیل معطل کر دی تھی۔ تاہم جلد ہی فیصلہ واپس لے لیا گیا۔

11 نومبر 2019 کی اس تصویر میں چین کے مشرقی جیانگ سو صوبے کے یانگ زو میں ’کنواروں کا دن‘ کے موقعے پر کارکنوں کو ڈیلیوری کمپنی کے گودام میں پیکجوں کو چھانٹتے ہوئے دکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی / ایس ٹی آر)

ایشیا نے تجارتی جنگ میں ایک نئے دھچکے کے ساتھ آنکھ کھولی ہے۔

ایک ایسا اقدام جو جتنا سادہ ہے اتنا ہی سخت بھی ہے۔ امریکہ نے چین اور ہانگ کانگ سے چھوٹے پیکجز کی ترسیل معطل کر دی، جس سے شین اور ٹیمو جیسے ای کامرس کے دیوقامت اداروں کو زبردست دھچکا لگا۔ تاہم جتنی جلدی اس فیصلے کا اعلان ہوا اتنا ہی جلدی اسے معطل بھی کر دیا گیا۔

اگر یہ فیصلہ برقرار رہتا تو اس کے اثرات شدید ہوتے۔ شین  اس وقت لندن سٹاک ایکسچینج پر 50 ارب پاؤنڈز کی لسٹنگ کی تیاری کر رہا ہے، جو لیبر حکومت کی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے اور لندن کے مالیاتی مرکز کی کشش بڑھانے کی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ہے۔

ٹرمپ کے اس حکم نے جس سے وہ استثنیٰ ختم ہو گیا جس کے تحت 800 ڈالر (تقریباً 641 پاؤنڈ) سے کم مالیت کے پیکجز ڈیوٹی فری بھیجے جا سکتے تھے، اس لسٹنگ کو کہیں زیادہ پیچیدہ بنا دیا ہوتا۔

امریکی خریداروں کے لیے سستے کپڑوں اور دیگر اشیا سے بھرے پیکٹوں کے چھانٹی دفاتر میں ڈھیر لگ چکے ہیں، جب کہ امریکی محکمہ ڈاک اور کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن کا کہنا ہے کہ وہ ’چین پر عائد نئے ٹیکس اکٹھے کرنے کے نظام کے مؤثر نفاذ کے لیے قریبی تعاون کر رہے ہیں تاکہ پیکجز کی فراہمی میں کم سے کم خلل پڑے۔‘

لیکن یہ اختتام نہیں بلکہ شروعات ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پوری طرح پرعزم ہیں کہ وہ اس استثنیٰ کو ختم کر دیں جس کے تحت 800 ڈالر (641 پاؤنڈ) سے کم مالیت کے پیکجز ڈیوٹی فری بھیجے جا سکتے ہیں۔

یہ فیصلہ جتنا سادہ لگتا ہے، اتنا ہی حیران کن بھی ہے۔ آخر امریکی صارفین کو وہ سستا سامان حاصل کرنے سے کیوں روکا جا رہا ہے، جس کے لیے وہ پہلے ہی ادائیگی کر چکے ہیں؟

خاص طور پر وہ لوگ جو شاید زیادہ خوشحال نہیں اور جن میں سے کئی نے ٹرمپ کو ووٹ دیا ہو گا۔

یہاں تک کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ بس یوںہی کیا جا رہا ہے۔ یہ ’ٹرمپ شاک سٹریٹجی‘ کا حصہ ہے۔ آئیے میں وضاحت کرتا ہوں۔

1930 میں جب دنیا نے آخری بار امریکی تحفظ پسندی کا زور دار جھٹکا محسوس کیا کیوں تب امریکہ نے ٹیرف ایک منظور کیا۔ اس قانون کے تحت ایک حد مقرر کی گئی جس کے نیچے آنے والی درآمدات پر کوئی ڈیوٹی عائد نہیں ہوتی تھی۔ اس کا قانونی اصول لاطینی جملے پر مبنی تھا جس کا مطلب ہے  کہ ’قانون معمولی چیزوں کی پروا نہیں کرتا۔‘

حالیہ برسوں میں، یہ حد بڑھا کر آٹھ سو ڈالر کر دی گئی۔

لیکن 1930 میں کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ایک دن چینی ای کامرس کے بڑے ادارے اس پرانے قانون کا فائدہ اٹھائیں گے اور ایک ایسا راستہ نکال لیں گے جس کے ذریعے وہ اپنی مصنوعات براہ راست امریکی خریداروں تک پہنچا سکیں گے، مقامی کاروباروں کو نقصان پہنچا سکیں گے اور امریکی کسٹمز ڈیوٹیز سے بچ سکیں گے۔

لیکن انہوں نے یہی کیا۔

اس کا نتیجہ کووڈ وبا کے دور میں چینی رعایتی سٹورز کے پیکجز کی ترسیل میں زبردست اضافے کی صورت میں نکلا۔

کانگریشنل ریسرچ سروس کے مطابق، 2019 میں کم مالیت کے سامان کو ٹیکس سے حاصل استثنیٰ کے تحت امریکہ بھیجے گئے پیکجز کی مالیت 5.3 ارب ڈالر تھی۔

2023 میں یہ بڑھ کر 66 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ ان میں سے دو تہائی پیکجز چین سے بھیجے گئے۔

قانون نافذ کرنے والے امریکی اداروں نے کہا کہ ان پیکجز میں سے کچھ میں غیر قانونی اشیا بھی شامل تھیں جیسے کہ منشیات ان کے بنیادی کیمیکل اور دیگر ممنوعہ ادویات۔

قانون سازوں نے پیکجز کے اس بے قابو سیلاب کا موازنہ امریکی سرحدوں پر غیر قانونی تارکین وطن کی آمد سے کرنا شروع کر دیا۔

مختصر یہ کہ یہ ایک اور مسئلہ تھا جو فوری حل کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی توجہ مانگ رہا تھا۔

کوئی نہیں جانتا کہ اس قانون پر عمل درآمد کیسے ہوتا، کیوں کہ نظریاتی طور پر لاکھوں پیکجز کی جانچ امریکی  کسٹمز ایجنٹس کو کرنی پڑتی۔

لیکن اس بظاہر غیر منطقی اقدام کے پیچھے ایک گہری حکمت عملی چھپی تھی۔

امریکہ یہ اشارہ دے رہا ہے کہ وہ تجارتی جنگ میں جارحانہ حربے  استعمال کرے گا جب کہ چین سرکاری طور پر پیچیدہ، جواب در جواب اقدامات میں پھنسا ہوا ہے۔

یہ غیر یقینی صورت حال ایشیا کی برآمدی معیشتوں میں ہلچل پیدا کر رہی ہے اور قائدین و کاروباری اداروں کو نئے حالات کے مطابق ڈھلنے پر مجبور کر رہی ہے۔

اب تک صدر ٹرمپ نے صدر شی جن پنگ سے تجارتی جنگوں پر بات نہیں کی اور انہوں نے اشارہ دیا کہ وہ اس معاملے میں جلد بازی نہیں کرنا چاہتے۔

لیکن چینی صدر خاموش تماشائی بھی نہیں بنے بیٹھے۔

وہ اسی ہفتے تھائی لینڈ کی وزیراعظم، پتونگ ترن شیناواترا کا استقبال کریں گے جو چار روزہ دورے پر چین پہنچنے والی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کی اولین ترجیح تجارت ہوگی۔

تھائی لینڈ، اور دیگر جنوب مشرقی ایشیائی برآمد کنندگان مصنوعات ’دوسرے ملک میں منتقل‘ کر کے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، کیوں کہ بہت سی بین الاقوامی کمپنیاں ٹرمپ کے ٹیرف سے بچنے کے لیے چین سے اپنی پیداوار باہر منتقل کر رہی ہیں۔

انڈیا بھی اس صورت حال کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

لیکن تمام مصنوعات کو ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرنا نہ تو سستا ہے اور نہ آسان۔

نہ ہی مسابقت کنندگان چین کی انتہائی پیچیدہ اور مربوط سپلائی چین کا متبادل تیار کر سکتے جو ملکی کارخانوں سے مصنوعات نکال کر، انہیں دیوہیکل کنٹینر جہازوں کے ذریعے فیلکسٹوو  جیسے عالمی بندرگاہوں تک پہنچاتی ہے۔

چینی ترجمانوں کو امریکی ٹیکس کے خلاف فوری ردِ عمل دینے میں دشواری ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک عہدیدار نے’ نام نہاد منشیات کے مسئلے‘ کا ذکر کیا۔ ایک ایسا بحران جس کا الزام چینی مبصرین امریکی معاشرتی زوال، جرائم اور قانون نافذ کرنے والے کمزور اداروں کو دیتے ہیں۔ جیسا کہ عوامی جمہوریہ چین میں ایسا کچھ نہیں ہوتا، یہ تو ظاہر ہی ہے۔

لیکن ٹرمپ کا ای کامرس پر حملہ، جسے وہ واضح طور پر نقصان سے پاک قدم سمجھتے ہیں، یقینی طور پر شی جن پنگ اور ان کی پالیسی ساز ٹیم کے لیے پریشان کن ثابت ہوا ہوگا۔

اب تک چین نے ٹرمپ کے اس فیصلے کے جواب میں انتہائی نپے تلے اقدامات کیے جس کے تحت امریکہ نے پہلے سے عائد ڈیوٹی کے پر15 فیصد اضافی ٹیکس لگا دیا۔

چین نے جواب میں امریکی کوئلے اور مائع قدرتی گیس  پر 15 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا اور خام تیل، زرعی مشینری، اور بڑی گاڑیوں پر بھی اسی شرح سے ڈیوٹی لگا دی۔

اس کے علاوہ، چینی حکومت نے پانچ سٹریٹیجک دھاتوں۔ ٹنگسٹن، ٹیلیریئم، بس متھ، مولیبڈینم اور ایریڈیم کی برآمد پر مزید سخت شرائط لگا دیں۔

تاہم ان میں سے کوئی بھی اقدام انتہائی سخت یا جارحانہ نہیں تھا۔

چینی ٹیرف کی سطح ایسی نہیں کہ وہ امریکی تجارت کو پوری طرح روک سکے اور ان پانچ دھاتوں میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس کی امریکی صنعتوں کو فوری اور سنگین قلت کا سامنا ہو۔

لیکن ساتھ ہی، چینی حکام نے گوگل کے خلاف پرانا اجارہ داری مخالف مقدمہ دوبارہ کھول دیا۔

اگرچہ گوگل کے سرچ انجن چین میں پہلے ہی پابندی ہے لیکن اس کی دیگر مصنوعات، جیسے اینڈروئیڈ آپریٹنگ سسٹم، چین میں منافع کما رہے ہیں۔

چینی مبصرین نے روآں ہفتے اس تجارتی جنگ کو برانڈز کے درمیان عالمی میدانِ جنگ قرار دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ، چین کے بڑے برانڈز کو تباہ کرنا چاہتا ہے  جن میں دیو قامت ٹیلی کام کمپنی ہواوے، دنیا بھر میں مقبول ایپ ٹک ٹاک اور سستی اے آئی  ٹیکنالوجی میں سبقت لے جانے والی کمپنی ڈیپ سیک شامل ہیں۔

مارکیٹ کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ محض اتفاق نہیں کہ چینی ای کامرس کمپنیوں کو نقصان پہنچانے کے ان اقدامات سے سب سے زیادہ فائدہ ایمازون  کو ہوگا۔

مائیکل شیریڈن  جو طویل عرصے سے دی انڈپینڈنٹ کے غیر ملکی نامہ نگار اور سفارتی ایڈیٹر  ہیں، نے دا ریڈ ایمپرر: شی جن پنگ اینڈ ہز نیو چائنہ کے نام سے کتاب تحریر کی جس ہیڈ لائن پریس نے شائع کیا۔ کتاب کی قیمت 25 پاؤنڈ ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر