کئی امریکی علاقے کچھ برسوں میں ناقابلِ رہائش ہو جائیں گے: تحقیق

امریکہ میں موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے اثرات کچھ علاقوں کو رہائش کے قابل نہ رہنے کے قریب لے جا رہے ہیں۔

پانچ فروری، 2025 کو کیلی فورنیا میں ایک خاتون آگ میں جلنے والے اپنے گھر کے ملبے میں چیزیں تلاش کرتے ہوئے (اے ایف پی)

امریکہ شدید موسموں سے ناواقف نہیں لیکن موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات کچھ علاقوں کو رہائش کے قابل نہ رہنے کے قریب لے جا رہے ہیں۔

جنوب مغرب میں جھلسا دینے والی گرمی سے لے کر ساحلی علاقوں میں سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح اور طوفانی لہروں تک، یہ چیلنجز نہ صرف متنوع اور پریشان کن ہیں بلکہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بھی ہیں۔

ماسادا سیگل، جو فیڈرل ایمرجنسی مینیجمنٹ ایجنسی (ایف ای ایم اے) اور ہنگامی اقدامات کے لیے قائم دیگر انتظامی اداروں کی مشیر ہیں، اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ فینکس کی رہائشی اور نو سالہ بیٹے کی ماں، سیگل نے اپنی آبائی جگہ کو شدید ماحول میں بدلتے دیکھا ہے۔

گذشتہ موسم گرما میں، فینکس میں مسلسل 113 دن تک درجہ حرارت سو درجے فارن ہائٹ  سے زیادہ رہا، جو اب تک کا سب سے طویل سلسلہ تھا۔ اس مہینے کا اوسط درجہ حرارت 97 درجے فارن ہائٹ  ریکارڈ کیا گیا۔

سیگل کہتی ہیں کہ ’گرمیوں میں جب درجہ حرارت 116 ڈگری ہو، تو آپ سوئمنگ پول کے کنارے لیٹنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ آپ یا تو پانی میں ہوں گے، یا گھر کے اندر، یا کسی سائے میں۔ اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب پول کا پانی اتنا گرم ہو جاتا ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے آپ کسی سوپ میں بیٹھے ہوں۔‘

گذشتہ سال فینکس میں صرف 4.54 انچ بارش ہوئی جو معمول سے 2.52 انچ کم تھی۔ بارش کی اس کمی اور بڑھتی ہوئی گرمی نے موسمی ترتیب کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

سیگل کہتی ہیں: ’میرے لیموں کے درخت پر جنوری میں پھول آ رہے ہیں۔ میرا لائم کا درخت جنوری میں کِھل رہا ہے۔ جبکہ انہیں بہار میں کھلنا چاہیے تھا، نہ کہ سردیوں میں۔‘

یہ تبدیلیاں صرف تکلیف دہ ہی نہیں بلکہ زندگی کے معیار اور ذہنی صحت پر بھی اثر ڈال رہی ہیں۔ سیگل کے بقول: ’ایری زونا میں لوگ گرمیوں میں ڈیپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے نیویارک میں سردیوں کے دوران لوگ موسمی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔‘

اب ایری زونا کے زیادہ تر رہائشی گرمیوں کا بیشتر وقت گھر کے اندر گزارتے ہیں اور اس کے نتیجے میں وٹامن ڈی کی مستقل کمی عام ہوتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر ریاست کے جنوبی حصے میں۔

میخائل چیسٹر جو ایری زونا سٹیٹ یونیورسٹی میں ماحولیاتی موافقت اور بنیادی ڈھانچے کے ماہر ہیں، ان تبدیلیوں کے طویل مدتی نتائج پر روشنی ڈالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کیا حالات بدتر ہوں گے؟ ہاں، ضرور ہوں گے۔ میرا مطلب ہے ہم یہ سب کچھ پہلے ہی دیکھ رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق، حالات بگڑنے کی ایک سادہ وجہ یہ ہے کہ ہم نے فوراً موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو حل نہیں کیا اور ہم اب بھی وہی طرز زندگی اپنا رہے ہیں جو دہائیوں سے چلا آ رہا ہے۔

 ’آج صبح میں نے اپنے بچوں کو پیٹرول پر چلنے والی گاڑی میں سکول چھوڑا اور فضا میں  کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل کر دی۔ اور یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اگلے سو سال تک وہیں موجود رہے گی۔‘

ناقابل برداشت گرمی: جنوب مغرب کا علاقہ

فینکس ہی وہ واحد شہر نہیں جو شدید گرمی اور پانی کی قلت سے نبرد آزما ہے۔ لاس ویگس اور لاس اینجلس بھی اسی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں کیوں کہ دریائے کولوراڈو جس پر اس خطے میں لاکھوں لوگوں کی زندگی کا دار و مدار ہے، بڑھتے درجہ حرارت، حد سے زیادہ استعمال، اور راکی پہاڑوں سے برف کے کم پگھلنے کی وجہ سے سکڑ رہا ہے۔

اگر پانی کے انتظام اور تحفظ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں نہ کی گئیں تو آنے والی دہائیوں میں یہ شہر ناقابل رہائش حالات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

یہ مسئلہ خاص طور پر فوری توجہ کا متقاضی ہے کیوں کہ کولوراڈو دریا کے پانی کے استعمال کی تقسیم سے متعلق موجودہ معاہدہ 2026 میں ختم ہو رہا ہے۔

یہ دریا صرف نواڈا اور کیلی فورنیا کے صحرائی علاقوں میں گھروں کو پانی فراہم کرنے کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس کے پانی سے بڑی مقدار میں فصلیں بھی اگائی جاتی ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ آبی ذریعہ محدود ہو گیا یا ختم ہو گیا تو خوراک کی قیمتیں آسمان کو چھو سکتی ہیں۔

چیسٹر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کچھ نہ کرنے کی قیمت آج بامعنی اقدامات اٹھانے کی قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ہم نے ان وسیع پیمانے پر تباہ کن حالات کو بے قابو ہونے دیا تو اس کے اخراجات گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور وقت کے ساتھ ساتھ آفات اور ان کے اسباب کو روکنے کی لاگت سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ یہی وہ بحث ہے جو ہمیں کرنی چاہیے۔‘

اتنا پرانا کہ دوبارہ تعمیر ممکن نہیں: نیویارک

چیسٹر کہتے ہیں کہ ’فینکس نیا شہر ہے جب کہ نیویارک ایک پرانا شہر اور یہی ایک بہت اہم نقطہ آغاز ہے۔‘ 

وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’فینکس اب بھی پھیل رہا ہے جب کہ نیویارک اپنی مکمل وسعت کو پہنچ چکا ہے۔‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ نیویارک کا بنیادی ڈھانچہ موجودہ ماحولیاتی شدت کے لیے بالکل نہیں بنایا گیا تھا اور یہ شہر اتنا گنجان آباد ہو چکا ہے کہ اس مسئلے کا کوئی آسان حل نظر نہیں آتا۔

چیسٹر مزید وضاحت کرتے ہیں کہ اگرچہ اس وقت فینکس جیسے شہر زیادہ شدید موسم کا سامنا کر رہے ہیں لیکن یہ ’ہمارے شدید موسمی حالات کے پیش نظر جدید تقاضوں کے مطابق بہتر ڈیزائن کیا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے یہاں نسبتاً کم ناکامیاں ہوتی ہیں، اور ہماری خدمات زیادہ قابل بھروسہ ہوتی ہیں۔‘

مثال کے طور پر فینکس میں سڑکوں کے لیے ایسی اسفالٹ کی آمیزش استعمال کی جاتی ہے جو شدید گرمی کو برداشت کر سکے۔ بجلی کی لائنیں زمین کے نیچے بچھائی گئی ہیں جب کہ نیویارک میں یہ فضا میں ہیں جس کی وجہ سے وہ طوفانی ہواؤں میں زیادہ آسانی سے متاثر ہو جاتی ہیں۔

اگلے 20 سال میں نیویارک اور نیو جرسی کے کچھ حصے غیر آباد ہو سکتے ہیں کیوں کہ سیلاب سے بار بار تباہ ہونے والے بنیادی ڈھانچے کی دوبارہ تعمیر کی لاگت اور دباؤ اتنا زیادہ ہو جائے گا کہ لوگ وہاں رہنا ترک کر دیں گے۔

چیسٹر مزید کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ صرف نیویارک تک محدود نہیں بلکہ پورے امریکہ، خاص طور پر مشرقی ساحلی علاقوں کے لیے ہے جہاں سب سے پہلے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر ہوئی۔

وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ’امریکہ میں زیادہ تر بڑے بنیادی ڈھانچے گذشتہ صدی کے وسط میں بنائے گئے تھے۔ اب 2025 آ چکا اور وہ اپنی متوقع عمر پوری کر چکے۔ ہم نے انہیں عارضی مرمت  کر کے مزید 20 سال گھسیٹا، لیکن اب ایسا کرنا ممکن نہیں رہا۔ وہ اپنی پہلی عمر کے اختتام کو پہنچ چکے ہیں۔‘

اگر اس بوسیدہ بنیادی ڈھانچے کو یوںہی چھوڑ دیا گیا اور موسمیاتی تبدیلی مزید بدتر ہوتی گئی تو 2300 تک مین ہٹن مکمل طور پر زیر آب آ سکتا ہے۔ اسی طرح فلوریڈا کے کئی شہر، بشمول پورا ایورگلیڈز2050 تک سمندر میں ڈوبنے کے دہانے پر ہوں گے۔

مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ نظاموں کو جدید بنانے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے نئے نظام بھی بنانے ہوں گے۔

’لیکن ایسا لگتا ہے کہ دونوں کام بیک وقت کرنے کی خواہش یا ارادہ موجود نہیں۔ چیسٹر وضاحت کرتے ہیں کہ ’ہمارے پاس پہلے سے ہی ایسے بنیادی ڈھانچے موجود ہیں جن میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور انہیں برقرار رکھنے کے لیے درکار رقم دستیاب نہیں۔‘

چوں کہ قدرتی آفات زیادہ عام ہو رہی ہیں اور ہم بہرحال اسی سمت جا رہے ہیں، اس لیے خطرے سے دوچار ساحلی علاقوں کی حفاظت کا بہترین طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہم شدید موسم کے ساتھ مل کر کام کریں، نہ کہ اس کے خلاف۔

مثال کے طور پر، نیویارک نے راک اویز  کے علاقے میں مضبوط ریتیلے بند  بنانے کا آغاز کیا ہے اور زیریں  مین ہٹن کی حفاظت کے لیے 119 ارب ڈالر کی سمندری دیوار  پر غور کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف ایری زونا کے شہر سکاٹس ڈیل نے ایک دہائی پہلے برسات کے موسم میں بارش کے پانی کو شہر سے دور لے جانے کے لیے کنکریٹ کے مضبوط نکاسی کے نظام کی تجویز دی لیکن شہریوں نے اسے بدنما کہہ کر مسترد کر دیا۔

نتیجتاً شہر نے نکاسی آب کے نظام کی بجائے پارکس اور تفریحی مقامات بنانے کا فیصلہ کیا۔

تازہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ نئے پارکس میں اگنے والی گھاس اور سبزہ دراصل پانی کو جذب کرنے میں اس کنکریٹ ڈھانچے سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئے، جسے پہلے نکاسی آب کے لیے تجویز کیا گیا۔

جن لوگوں نے کنکریٹ سے بنے پانی کے راستے کا دفاع کیا وہ یہ سوچنے میں غلطی کر بیٹھے کہ فطرت کو شکست دی جا سکتی ہے، بجائے اس کے کہ اس کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔ مگر اب ہم اتنی دور آ چکے ہیں کہ اس پرانی طرز فکر سے آگے بڑھنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

فلوریڈا میں سطح سمندر میں اضافہ اور آلودگی کا خطرہ

میامی میں سمندر کی سطح میں اضافہ اور شدید طوفان خطرناک صورت حال پیدا کر رہے ہیں۔ شہر کی گلیاں بڑے سیلابی ریلوں کے دوران اکثر زیرِ آب آ جاتی ہیں اور نمکین پانی داخل ہو کر شہر کے پینے کے پانی کے ذخائر کو آلودہ کر رہا ہے۔

جیسے جیسے طوفان مزید شدید ہوتے جا رہے ہیں، تعمیر نو کے اخراجات اور رہائشیوں پر پڑنے والے اثرات بھی مسلسل بڑھتے جائیں گے۔

چیسٹر لاس اینجلس میں حالیہ جنگلاتی آگ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’بحرالکال کے ساحل پر واقع پیلیسیڈز میں، بہت سے لوگ بغیر انشورنس کے بھی اپنے گھروں کو دوبارہ بنا سکیں گے۔‘ 

لیکن وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ ’جب کہ امریکہ کے دوسرے حصوں میں، اگر لوگوں کے پاس انشورنس نہ ہو تو وہ اپنے گھر دوبارہ تعمیر کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

’یہی صورت حال فیصلہ کرے گی کہ ہم کہاں سرمایہ کاری کریں گے اور کہاں نہیں۔ اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ کچھ ریاستیں ڈویلپمنٹ کی اجازت دینے یا نہ دینے کے حوالے سے زیادہ سنجیدہ ہو رہی ہیں۔‘

فلوریڈا جیسی ریاستیں اس بحث کی مرکزی کردار ہوں گی اور انہیں اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے بڑی رقم خرچ کرنا پڑے گی لیکن یہ واضح نہیں کہ سیاسی عزم موجود ہے یا نہیں۔

یہ صورت حال خاص طور پر تشویشناک ہے کیوں کہ میامی میں آبادی اور تعمیراتی ترقی میں تیزی آ رہی ہے حالاں کہ اگلے 25 سال میں میامی-ڈیڈ کاؤنٹی کا 60 فیصد حصہ زیر آب آ سکتا ہے۔

کون قیمت چکائے گا؟: کیلی فورنیا میں جنگل کو لگنے کا مسئلہ

کیلی فورنیا میں جنگلاتی آگ کا موسم پہلے سے کہیں زیادہ طویل، گرم اور جان لیوا ہو چکا ہے، جس کی بڑی وجوہات خشک سالی، شدید گرمی، اور ناقص جنگلاتی انتظام ہیں۔

یہ آگ صرف گھروں اور زمین کو نہیں جلا رہی بلکہ پورے شہروں کو دھوئیں سے بھر رہی ہے، جس کے صحت کے لیے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

ماسادا سیگل، جنہوں نے نائن الیون حملے کی رپورٹنگ کی اور متاثرہ امدادی کارکنوں کی صحت پر پڑنے والے طویل مدتی اثرات کو قریب سے دیکھا، اب کیلی فورنیا میں آگ بجھانے والے عملے کے ارکان اور رہائشیوں کی صحت کے بارے میں ویسی ہی تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے فکر ہے کہ کیلی فورنیا میں کام کرنے والے فائر فائٹرز کو سانس کی سنگین بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ہم نے نائن الیون کے ریسکیو ورکرز میں دیکھا تھا۔‘

جنگلاتی آگ ایک خطرناک ماحولیاتی چکر کو بھی جنم دے رہی ہے۔ آگ بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ  خارج کرتی ہے جو موسمیاتی تبدیلی کو مزید تیز کر دیتا ہے۔

اس کے نتیجے میں مزید حدت اور خشکی پیدا ہوتی ہے جو آگ لگنے کے امکانات کو بڑھا دیتی ہیں۔

ایک بار پھر بات پیسے پر آ جاتی ہے۔ چیسٹر جنگلاتی آگ سے ہونے والے نقصانات کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’یہ سوال اب کھل کر سامنے آ رہا ہے۔

کیا انشورنس کمپنیاں یہ نقصان بھرپائیں گی؟ کیا ریاستی حکومت یا وفاقی حکومت اس کا خرچ اٹھائے گی؟ اور ابھی تک ان سوالوں کا کوئی واضح جواب نہیں۔‘

چیسٹر کہتے ہیں کہ ’آپ جلد ہی ریاستی حکومتوں اور انشورنس کمپنیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشمکش دیکھیں گے۔ یہ کمپنیاں منافعے کے لیے کام کرتی ہیں تو پھر انہیں کیسے مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ مخصوص شرائط کے تحت انشورنس فراہم کریں جب کہ ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے؟ ہم اس تناؤ اور بحث کو عملی شکل میں دیکھنے والے ہیں۔‘

کئی ماحولیاتی سائنس دان اس بحث کے ممکنہ نتائج کے بارے میں مایوس نظر آتے ہیں۔ ایک ماہر نے پیش گوئی کی ہے کہ لاس اینجلس بالآخر ’دنیا کا پہلا بھوت بڑا شہر بن سکتا ہے۔‘

جب اگلی ایک دہائی کے دوران موسمیاتی آفات میں مسلسل اضافے کے بعد انشورنس کمپنیاں وہاں کے مکانات کو تحفظ فراہم کرنے سے مکمل انکار کر دیں گی۔

پیسہ ہر مسئلے کا حل نہیں: مغربی امریکہ میں پانی کا بحران

جیسے جیسے پانی کے ذخائر کم ہو رہے ہیں، مغربی ساحلی علاقوں کو سخت فیصلے کرنے پڑ سکتے ہیں کہ کون سی آبادیاں طویل مدت تک پائیدار رہیں گی۔

وسیع فاصلے سے پانی کی ترسیل کے اخراجات اتنے زیادہ ہو سکتے ہیں کہ لوگ گرمی کی وجہ سے نہیں بلکہ زندگی گزارنے کے بڑھتے اخراجات کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے۔

ایری زونا کے ایک علاقے میں یہ بحران پہلے ہی حقیقت بن چکا ہے۔ ریو وردے فوٹ ہلز، جو سکاٹس ڈیل کے مضافات میں واقع ایک خوش حال علاقہ ہے، نے 2023 میں شہر کے خلاف مقدمہ دائر کیا جب سکاٹس ڈیل نے ان کے پانی کی سپلائی مکمل طور پر بند کر دی۔

شدید خشک سالی کی وجہ سے سکاٹس ڈیل نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی آبادی کو پانی فراہم کرنے کو ترجیح دے گا اور مزید ان نجی واٹر ٹرکوں کو اجازت نہیں دے گا جو پانی ریو وردے کے ان امیر رہائشیوں کو فراہم کرتے تھے جنہوں نے اپنی کوٹھیاں قریبی پہاڑیوں پر بنا رکھی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

10 ماہ کی قانونی جنگ کے بعد بالآخر پانچ سو گھروں کی پانی کی فراہمی بحال کر دی گئی۔

یہ رہائشی اب کینیڈین واٹر کمپنی ایپ کور کے ساتھ عارضی معاہدے کے تحت پانی حاصل کر رہے ہیں، جس کے لیے ایک کروڑ ڈالر مالیت کا نیا سٹینڈ پائپ نصب کیا گیا ہے، جو وردے دریا سے پانی لے گا۔

یہ معاہدہ دسمبر 2025 میں ختم ہو جائے گا اور اس کے بعد ان رہائشیوں کا پانی کا مستقبل ایک بار پھر غیر یقینی ہو جائے گا۔

مسادا سیگل کے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ مسلسل ایری زونا کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔

صرف پچھلے سال ہی ڈھائی  لاکھ نئے لوگ ریاست میں آباد ہوئے اور ریو وردے فوٹ ہلز جیسی بستیاں بنا رہے ہیں، حالاں کہ ریاست کا بنیادی ڈھانچہ پہلے ہی نئی آبادی کو سنبھالنے میں مشکلات کا شکار ہے۔

آخرکار انتہائی امیر لوگ بھی یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ کچھ چیزیں دولت سے نہیں خریدی جا سکتیں۔

انتہائی سردی: شکاگو میں قطبی طوفان

اگرچہ جنوبی امریکہ میں گرمی سب سے بڑا خطرہ ہے، لیکن مڈویسٹ میں شدید سرد موسم بڑھتی ہوئی پریشانی بن چکا ہے۔

شکاگو جیسے شہر ریکارڈ توڑ انتہائی سرد لہروں کا سامنا کر رہے ہیں، جو قطبی بھنور میں خلل کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہیں۔

یہ اچانک اور شدید برفانی جھکڑ توانائی کے نظام پر دباؤ ڈالتے ہیں، انسانی جانوں کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں اور روزمرہ زندگی کو بے حد مشکل بنا دیتے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی کے باعث مڈویسٹ میں عمومی طور پر سردیاں قدرے گرم ہونے کی توقع ہے لیکن درجہ حرارت میں اس غیر متوقع خلل کی وجہ سے شمالی قطب سے جما دینے والی ہوائیں نیچے آ کر اچانک برفانی طوفان برپا کر سکتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مڈویسٹ میں مجموعی طور پر موسمِ سرما کم شدید ہو گا لیکن بعض مواقع پر شدید سردی کی ایسی لہر آ سکتی ہے جو بنیادی ڈھانچے کو مفلوج کر کے رکھ دے اور انسانی جانوں کے لیے خطرہ بن جائے۔

یقیناً موسمی درجہ حرارت میں عمومی اضافے کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ گرمیاں زیادہ شدید ہوں گی۔ خاص طور پر ان شہروں میں جن کی عمارتیں گرمی کو اندر رکھنے کے لیے بنائی گئی تھیں، نہ کہ اسے باہر نکالنے کے لیے۔

سیلاب بھی ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ شکاگو جو کبھی ایک دلدلی علاقے پر تعمیر کیا گیا۔ اگر مسلسل شدید بارشیں اور پانی بھرنے کے واقعات رونما ہوتے رہے، تو ڈوبنے کے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔

مڈویسٹ کو اکثر ماحولیاتی پناہ گاہ یا ’ماحولیاتی پناہ‘ سمجھا جاتا تھا یعنی ایک ایسی جگہ جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نسبتاً محفوظ رہے گی۔ لیکن زیادہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نظریہ اب فرسودہ ہو چکا ہے اور موجودہ حالات میں یہ مفروضہ درست نہیں۔

ہوا کا معیار اور علاقائی سیاست: آپ ورمونٹ کیوں منتقل نہیں ہو سکتے؟

بہت سے امریکیوں کے لیے آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لیے کسی اور جگہ منتقل ہونے کا خیال نظریاتی طور پر تو پرکشش لگتا ہے، لیکن یہ عملی طور پر مشکل ہے۔

جیسا کہ سیگل کہتی ہیں  کہ ’کیا میں کہیں اور جا سکتی ہوں؟ فینکس میں اکتوبر میں درجہ حرارت 116 ڈگری تھا! لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میری بہن فلوریڈا سے ملنے آئی، اور وہاں بھی شدید گرمی تھی۔ تو پھر کہاں جایا جائے؟ کیلی فورنیا میں جنگلات کی آگ، نیویارک میں ہوا کی آلودگی۔ آپ بس کہیں بھاگ کر بچ نہیں سکتے۔‘

چاہے ورمونٹ یا مینیسوٹا جیسے شمالی ریاستیں نسبتاً محفوظ لگیں، لیکن خطرے سے دوچار علاقوں میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کے لیے اجتماعی نقل مکانی کوئی حقیقت پسندانہ حل نہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’امریکہ کے جنوبی حصوں میں بسنے والے لاکھوں لوگ یہ سب کچھ چھوڑ کر کہیں اور منتقل نہیں ہو سکتے۔‘

چیسٹر بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں اور خبردار کرتے ہیں کہ صرف شمال کی طرف منتقل ہونے کو مسئلے کا حل سمجھنا غلط ہو گا۔

’میں نے وہ مطالعات دیکھے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کچھ علاقے دوسروں کے مقابلے میں کم خطرناک ہیں۔ جیسے کہ مینیسوٹا اچھی جگہ لگتی ہے۔

’یا جو بھی، لیکن پھر آپ کو کینیڈا کی وہ زبردست جنگلاتی آگ دیکھنے کو ملتی ہے، جو شمالی امریکہ میں طویل عرصے تک ہوا کے معیار کو انتہائی خراب کر دیتی ہے۔

’آپ خود کو ان خطرات سے مکمل طور پر نہیں بچا سکتے۔ وہ جغرافیائی سرحدیں جن پر ہم عام طور پر فیصلے کرنے کے لیے انحصار کرتے ہیں، ہوا کے معیار کے معاملے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔‘

خطرات کے بیچ گھرے ہونا: بچنے کا کوئی راستہ نہیں

چیسٹر مزید کہتے ہیں کہ ’شدید حالات میں پیچھے ہٹنے کا وقت آتا ہے لیکن یہ ہمارا پہلا حل نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا شروع کرنا ہوگا کہ کچھ قدرتی آفات ہوں گی، اور ہمیں اسی حقیقت کے مطابق تعمیر نو کرنی ہوگی۔‘

مثال کے طور پر، نیویارک سٹی میں ’آپ ہر چیز کو اکھاڑ کر نیا بنیادی ڈھانچہ نہیں بنا سکتے۔ اس کی سو وجوہات ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’لہٰذا آپ کو سیلاب اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اور ان کے اثرات کو کم کرنا ہوگا۔‘ 

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ سیلاب آئیں گے اور لوگوں کو یہ سکھایا جائے کہ ان سے کیسے نمٹا جائے۔

مثال کے طور پر، ذیابیطس کے مریضوں کو یہ آگاہی دینا کہ اگر بجلی نہ ہو تو انسولین کو کیسے محفوظ رکھا جائے۔ اور جہاں بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی ممکن ہو، جیسے کہ نکاسی آب کی لائنوں کو چوڑا کرنا، بجلی کی تاروں کو زیر زمین لے جانا، یا عمارت کے اہم حصوں کو اوپر کی منزلوں پر منتقل کرنا، تو ایسی تبدیلیاں ضرور کی جانی چاہییں۔

چیسٹر مزید کہتے ہیں کہ ’ناکامی کی قیمت، کچھ نہ کرنے کی قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔‘

’آپ لاس اینجلس کی جنگلاتی آگ یا نیویارک کے سیلاب سے آنکھیں نہیں چرا سکتے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے اثرات کی کوئی قیمت نہیں۔ ان کی قیمت ناقابلِ تصور ہے۔‘

چیسٹر کے نزدیک موسمیاتی اقدامات صرف معیشت کے لیے نہیں بلکہ ایک مثال قائم کرنے کے بارے میں بھی ہیں۔

انہوں نے اپنے گھر پر سولر پینل لگائے۔ پیسے بچانے کے لیے نہیں بلکہ اپنے بچوں کو یہ پیغام دینے کے لیے کہ ’یہ وہ کام ہے جو ہم کرتے ہیں۔ یہ اہم ہے۔‘

چیسٹر اس مسئلے کو ذاتی طور پر محسوس کرتے ہیں۔ ’اگر میرے بچے، جو ابھی تین، پانچ اور سات سال کے ہیں، اوسط عمر تک زندہ رہے، تو وہ 2100 تک زندہ رہیں گے۔ یعنی اس صدی کے آخر تک۔ جو فیصلے ہم آج کر رہے ہیں، وہ ان کے مستقبل کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کریں گے۔‘

سیگل اور ان کے خاندان کو چیلنجوں کے باوجود خوشی کے لمحات اب بھی مل جاتے ہیں۔ ’جب کچھ مہینے قبل بارش ہوئی تو میرا بیٹا فوراً باہر بھاگا اور صحن میں جا کر ہاتھ پاؤں چلانے لگا۔

’جب بارش ہوتی ہے تو ہم باہر جا کر کھیلتے ہیں کیوں کہ ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے کہ بارش ہو رہی ہے۔‘

لیکن خوشی کے یہ چھوٹے چھوٹے لمحات اس بات کو اور واضح کرتے ہیں کہ فوری اقدامات کتنے ضروری ہیں۔

’سیگل مزید کہتی ہیں کہ  ’ایری زونا میں جب بارش ہوتی ہے تو یہ سب سے بڑی خبر بن جاتی ہے۔ سب لوگ خوش ہوتے ہیں۔‘

ایسا موسمیاتی مستقبل جس میں بارش نایاب اور گرمی شدید ہو، صرف ایری زونا کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ اور جب ایسا ہوگا تو متاثرہ لوگوں کے پاس یہ عذر نہیں ہوگا کہ ان کی سیاست انہیں حقیقت تسلیم کرنے سے روکتی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ