امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو انکشاف کیا ہے کہ وہ یوکرین امن مذاکرات کے لیے سعودی عرب میں روسی صدر ولادی میر پوتن سے ملاقات کریں گے، دونوں رہنماؤں کے درمیان اچانک فون کال کے بعد تعلقات میں غیر معمولی بہتری پائی گئی۔
دوسری جانب روس نے کہا ہے کہ یہ کال تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ’ایک ساتھ کام کرنے کا وقت آ گیا ہے‘ اور صدر پوتن نے ٹرمپ کو ماسکو آنے کی دعوت دی ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ یہ سب ’مستقبل بعید میں نہیں‘ ہو گا اور مزید کہا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، جنہوں نے اس ہفتے روس اور امریکہ کے قیدیوں کے تبادلے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، بھی اس ملاقات میں شامل ہوں گے۔
ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی کے بعد اپنے پہلے تصدیق شدہ رابطے میں، امریکی صدر نے کہا کہ انہوں نے روسی ہم منصب کے ساتھ ’طویل اور انتہائی نتیجہ خیز‘ بات چیت کی ہے۔
اس اقدام نے خدشات کو جنم دیا کہ یوکرین اس بات چیت سے باہر رہ جائے گا لیکن ٹرمپ نے اس بات کی تردید کی کہ یوکرین کو دو جوہری ہتھیاروں سے لیس سپر پاورز کے درمیان براہ راست مذاکرات سے خارج کیا جا رہا ہے۔
ٹرمپ نے اوول آفس میں پوتن سے ملنے کے منصوبوں کے بارے میں بتایا، ’ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ یہاں آئیں گے، اور میں وہاں جاؤں گا -- اور ہم شاید پہلی بار سعودی عرب میں ملنے جا رہے ہیں۔‘
20 جنوری کو اقتدار سنبھالنے سے پہلے ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ یوکرین جنگ ’24 گھنٹوں کے اندر‘ ختم کر دی جائے گی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹرتھ سوشل‘ پر اعلان کرتے ہوئے دنیا کو حیران کر دیا کہ ان کی اور ولادی میر پوتن کی بات چیت ہوئی ہے، اور دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ ’ہم روس-یوکرین جنگ میں ہونے والی لاکھوں اموات کو روکنا چاہتے ہیں۔‘
ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے اور پوتن نے ’باہمی قریبی تعاون‘ پر اتفاق کیا ہے، جس میں ایک دوسرے کے ممالک کا دورہ شامل ہے، اور یوکرین پر فوری طور پر مذاکرات شروع کرنے کے لیے اپنی ٹیموں کو کام پر لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
بعد ازاں، ٹرمپ نے یوکرینی صدر وولودی میر زیلنسکی سے بھی بات کی، جو پوتن کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں شامل نہیں تھے۔ زیلنسکی نے کہا کہ ان کی ٹرمپ سے ’بامعنی‘ گفتگو ہوئی، جس میں انہوں نے پوتن سے ہونے والی بات چیت کی تفصیلات بھی شیئر کیں۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ زیلنسکی بھی، ’پوتن کی طرح، امن چاہتے ہیں۔‘
یوکرین کے صدارتی دفتر کے سربراہ آندری یرماک نے کہا کہ زیلنسکی اور ٹرمپ نے اتفاق کیا کہ دونوں جانب سے اعلیٰ سطحی وفود کو فوری طور پر کام پر لگایا جائے، جو روزانہ کی بنیاد پر مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔ زیلنسکی اور ان کے حکام ان مذاکرات میں شامل امریکی وفد سے میونخ سکیورٹی کانفرنس میں ملاقات کریں گے۔
ٹرمپ اور پوتن کی گفتگو نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ امریکہ یوکرین جنگ پر روس کی شرائط تسلیم کر سکتا ہے۔
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے بدھ کو یورپی رہنماؤں کو بتایا کہ یوکرین کا 2014 سے پہلے والی سرحدوں پر واپسی کا خواب ’غیر حقیقی‘ ہے، اور نیٹو میں شمولیت کی خواہش بھی ’ممکن نہیں‘۔ یہ دونوں مطالبات ماسکو کے کلیدی مطالبات میں شامل ہیں۔
ٹرمپ نے زیلنسکی کو مذاکرات سے باہر رکھنے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن روس کی شرائط نہیں مان رہا۔ دوسری جانب، یرماک نے کہا کہ ’یوکرین کی آزادی، علاقائی سالمیت اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ‘ نہیں کیا جا سکتا۔
یوکرین نے امریکہ سے سخت سکیورٹی ضمانتوں کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ ٹرمپ نے کیئف کو فوجی امداد کے بدلے اس کے نایاب معدنی وسائل پر معاہدے کی تجویز دی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زیلنسکی جمعہ کو امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور وزیر خارجہ مارکو روبیو سے میونخ میں ملاقات کریں گے، جبکہ بدھ کو انہوں نے امریکی وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ سے کیئف میں بات چیت کی۔
کریملن کے بیان میں کہا گیا کہ پوتن اور ٹرمپ کے درمیان مذاکرات کے ذریعے طویل المدتی تصفیہ ممکن ہے، لیکن ماسکو نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ ’تنازعے کے بنیادی اسباب پر توجہ دینا چاہتا ہے، جنہیں وہ یوکرین پر مغربی اثر و رسوخ کا نتیجہ‘ قرار دیتا ہے۔
اس ہفتے امریکہ اور روس کے درمیان کچھ مثبت اشارے بھی ملے، جب ماسکو نے امریکی شہری مارک فوگل کو رہا کیا، جبکہ واشنگٹن نے روسی کرپٹو کرنسی مافیا کے سرغنہ الیگزینڈر وینک کو آزاد کیا۔
ٹرمپ ماضی میں پوتن کی تعریف کرتے رہے ہیں اور انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹرتھ سوشل‘ پر بھی روسی صدر کی تعریف کی۔ ٹرمپ نے کہا کہ پوتن نے میرے مضبوط انتخابی نعرے ’کامن سینس‘ کو بھی دہرایا، اور فوگل کی رہائی پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
تاہم، کیئف اور یورپی دارالحکومتوں میں اس ممکنہ معاہدے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ فرانس، جرمنی اور سپین کے وزرائے خارجہ نے بدھ کو واضح کیا کہ یوکرین اور اس کے یورپی شراکت داروں کی شمولیت کے بغیر کوئی پائیدار اور منصفانہ امن ممکن نہیں۔