سعودی عرب میں جمعے کو عرب رہنماؤں کا ایک اجلاس ہو گا جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر کنٹرول اور فلسطینیوں کی بے دخلی کے مجوزہ منصوبے کے متبادل پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سفارتی اور حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے منصوبے نے عرب ممالک میں غیر معمولی اتحاد پیدا کیا ہے، جو اس کی سختی سے مخالفت کر رہے ہیں، تاہم غزہ کے نظم و نسق اور تعمیر نو کی مالی اعانت پر اختلافات برقرار ہیں۔
سعودی خارجہ پالیسی کے ماہر عمر کریم نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ اجلاس کئی دہائیوں میں فلسطینی مسئلے اور وسیع تر عرب دنیا کے لیے ’سب سے زیادہ اثر انگیز‘ ثابت ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ نے جب یہ اعلان کیا کہ امریکہ ’غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لے گا‘ اور وہاں کے 24 لاکھ باشندوں کو مصر اور اردن منتقل کر دے گا، تو اس پر شدید بین الاقوامی ردعمل آیا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر امریکی کنٹرول اور وہاں کے 24 لاکھ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے منصوبے کو عالمی سطح پر شدید مذمت کا سامنا ہے، جسے ناقدین نے نسل کشی قرار دیا ہے۔
عرب ممالک، فلسطینی قیادت اور انسانی حقوق کے ماہرین نے اسے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
روئٹرز کے مطابق ٹرمپ نے 25 جنوری کو پہلی بار اس منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مصر اور اردن فلسطینیوں کو پناہ دیں، جبکہ غزہ کو خالی کر کے وہاں نئے منصوبے شروع کیے جائیں۔‘
ٹرمپ کے اس منصوبے کو فلسطینی قیادت نے فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور 1948 کے نکبہ کی یاد تازہ کرنے والا اقدام قرار دیا ہے۔ مصر اور اردن نے اسے سختی سے مسترد کر دیا، جبکہ ماہرین کے مطابق یہ اقدام خطے میں مزید کشیدگی کو ہوا دے سکتا ہے۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے جبری بےدخلی کو بین الاقوامی قوانین کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اے ایف پی نے بتایا کہ سعودی حکومت سے قریبی تعلق رکھنے والے ذرائع کے مطابق، عرب رہنما اس کے متبادل کے طور پر تعمیر نو منصوبے پر غور کریں گے، جو ممکنہ طور پر مصر کے مجوزہ منصوبے پر مبنی ہو گا۔
اس اجلاس میں پہلے صرف سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، قطر اور اردن نے شرکت کرنی تھی، لیکن اب اس میں خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے چھ رکن ممالک اور فلسطینی اتھارٹی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق، غزہ کی تعمیر نو پر 53 ارب ڈالر سے زائد لاگت آئے گی، جس میں ابتدائی تین سالوں کے دوران 20 ارب ڈالر سے زائد کی ضرورت ہوگی۔
سعودی عرب میں متوقع اجلاس میں دو ریاستی حل کے لیے سیاسی راستہ ہموار کرنے پر بھی بات چیت ہوگی تاکہ ایک پائیدار فائر بندی کے لیے ترغیب دی جا سکے۔
سعودی خارجہ پالیسی کے ماہر عمر کریم کے بقول کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بے مثال عرب اتحاد درکار ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، قطر اور مصر سے حماس کے حوالے سے یقین دہانی کے بغیر مالی امداد فراہم نہیں کریں گے۔
فائر بندی اپ ڈیٹ: حماس نے چار قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کردیں
حماس نے جمعرات کو چار اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دی ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق فلسطینی گروہ نے اعلان کیا کہ شِری بیباس، ان کے دو کمسن بیٹے کفیر اور اریئل، اور ایک اور قیدیوں اوڈید لیفشٹز کی لاشیں خان یونس میں اسرائیلی حکام کے حوالے کی گئیں۔
حالیہ فائر بندی کے پہلے مرحلے کے تحت اب تک 19 اسرائیلی قیدیوں کو 1100 سے زائد فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا گیا ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق، باقی 14 میں سے آٹھ قیدی مارے گئے ہیں۔
اسرائیل اور حماس نے رواں ہفتے ایک معاہدہ کیا، جس کے تحت آٹھ قیدیوں کی لاشیں دو مراحل میں واپس کی جائیں گی، جبکہ ہفتے کو چھ اسرائیلی قیدیوں کو زندہ رہا کیا جائے گا۔
حماس اور اس کے اتحادیوں نے سات اکتوبر 2023 کے حملے میں 251 افراد کو قیدی بنایا، جن میں سے 70 اب بھی غزہ میں موجود ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ان میں 35 قیدی مارے جا چکے ہیں۔
اسرائیل کے زمینی اور فضائی حملوں میں غزہ میں کم از کم 48,297 افراد جان سے گئے ، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی اور اقوام متحدہ ان اعداد و شمار کو معتبر سمجھتا ہے۔