کاروباری شخصیات اور سکیورٹی فورسز کے باہمی تبادلہ خیالات اور سیمینار کے تسلسل میں، گذشتہ شب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے زیر اہتمام سٹیک ہولڈرز کا اختتامی اجلاس آرمی آڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔ رات کے کھانے کے بعد اس اجلاس میں سرکاری معاشی ٹیم اور ملک کے نمایاں تاجروں نے حصہ لیا۔
گذشتہ رات اس میٹنگ میں موجود پاکستانی صنعت کار اور اے کے ڈی گروپ کے چئیرمین عقیل کریم ڈھیڈی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور بزنس کمیونٹی کے درمیان ہونے والی ملاقات کا احوال بتایا۔
عقیل کریم ڈھیڈی نے بتایا کہ ’یہ میٹنگ شام سات بجے کے بعد شروع ہوئی اور ہم رات ڈیڑھ بجے میٹنگ سے فارغ ہوئے۔ اس میٹنگ کے بعد کاروباری حضرات اتنے خوش تھے کہ جب ڈیڑھ بجے ہم ہال سے باہر نکلے تو عموماً اتنی لمبی میٹنگ کے بعد انسان تھک جاتا ہے لیکن ایک گھنٹہ ہم نے باہر کھڑے ہو کر گپیں بھی ماریں۔ یعنی یہ میٹنگ ساڑھے چھ سے سات گھنٹے تک جاری رہی۔‘
تاجروں اورصنعت کاروں کو آرمی چیف سے ملاقات کرنے کی ضروت کیوں پیش آئی؟ اس سوال کے جواب میں صنعت کار عقیل کریم ڈھیڈی کا کہنا تھا کہ ’آرمی چیف پاکستان کی فورس کے چیف ہیں اور سب سے بڑی بات ہے کہ یہ ملاقاتیں مستقل رہتی ہیں۔ جب راحیل شریف صاحب آرمی چیف تھے تو ان کے دور میں بھی ایسی ملاقاتیں ہوتی تھیں۔‘
’قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں یہ ہماری کوئی پہلی ملاقات نہیں ہے۔ وہ اور ہم دونوں پاکستان کے حوالے سے فکرمند ہیں اور اگر آرمی چیف یہ کردار ادا کر رہے ہیں تو اچھی بات ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ معاشی معاملات پر بات کرنے کے لیے مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور وفاقی وزیر برائے معاشی امور حماد اظہر موجود تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے آرمی چیف سے سکیورٹی کے حوالے سے بھی بات کی۔ یہ ایک اچھی ملاقات تھی، مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ لوگ اس کا سکینڈل کیوں بنا رہے ہیں۔ میٹنگ کے دوران ایک بھی ایسا موقع نہیں آیا کہ کوئی بدمزگی ہوئی ہو۔‘
جب عقیل کریم ڈھیڈی سے اس بارے میں پوچھا کہ کیا واقعی آرمی چیف سے ملاقات میں تاجر و صنعت کار کاروبار میں مشکلات کی وجہ سے پھٹ پڑے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس پر انھوں نے کہا ’یہ بالکل غلط ہے! اس ملاقات میں کسی بھی آدمی نے ایسی کوئی بات نہیں کی جسے ہم شکایت کہہ سکیں۔ صنعت کاروں نے یہ ضرور کہا کہ ہمیں تھوڑے اعتماد کی ضروت ہے۔ آرمی چیف نے ہمیں رات کے کھانے کی دعوت دی تھی اور کھانے کے بعد ہم آرمی آڈیٹوریم میں بیٹھے۔ میٹگ میں ہر مسئلے پر کھل کر بات کی گئی۔‘
’ہاں کچھ لوگ جیسے میاں منشا اور ملک ریاض وغیرہ نے نیب کے کیسز کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا بات کی لیکن دیگر صنعت کاروں نے کاروباری مسائل کے حوالے سے آگاہ کیا۔ ہم نے بتایا کہ ہمیں ریفنڈ میں مسائل آ رہے ہیں شاید حکومت وہ دے نہیں پا رہی تو حکومتی نمائندوں نے ہمارے تمام سولات کا جواب دیا اور ہمیں سو فیصد مطمئن کیا۔ کچھ جگہوں پر ہم سمجھ رہے تھے کہ ہم سے کوتاہی ہو رہی ہے لیکن حکومتی نمائندوں نے ہمیں یقین دہانی کرائی کہ بزنس کمیونٹی کے تمام مسائل کو وزیر اعظم سے ڈسکس کیا جائے گا اور ان مسئلوں کو حل کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔‘
عقیل کریم ڈھیڈی نے آرمی چیف اور حکومتی نمائندوں کے ساتھ میٹنگ کے حوالے سے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک لمبے عرصے کے بعد، اتنی لمبی میٹنگ کرنے میں مزہ اس لیے بھی آیا کہ کھل کر ہر مسئلے پر بات چیت ہو رہی تھی اور کوئی ایسی بات نہیں ہوئی کہ لوگ یہ کہیں کہ اس ملاقات کے بعد وہ مطمئن نہیں ہوئے۔‘
اس ملاقات کے حوالے سے مختلف حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ آرمی چیف اور صنعت کاروں کے درمیان ہونے والی یہ ملاقات رات دیر تک جاری رہی کیوں کہ ملک میں ابھرتے ہوئے معاشی مسائل، جی ڈی پی کی انتہائی کم ترین سطح اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے پاکستان میں بزنس کرنا ایک گورکھ دھندہ بن گیا ہے اور دوسری جانب ایف بی آر آمدنی بڑھانے کے لیے مسلسل بزنس کمیونٹی کو نچوڑ رہا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے کہا کہ قومی سلامتی کا معیشت سے گہرا تعلق ہے جبکہ ملک میں خوشحالی قومی سلامتی اور معاشی نمو کے درمیان توازن سے آتی ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ مختلف مباحثوں اور سیمیناروں کا مقصد سٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ہے تاکہ مشترکہ طور پر آگے بڑھنے کے لیے سفارشات مرتب کی جاسکیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق سرکاری معاشی ٹیم نے کاروباری برادری کو کاروبار کی سہولت کے لیے حکومت کی طرف سے پیش کردہ اقدامات اور قومی معیشت پر استحکام کی کوششوں کے حوصلہ افزا نتائج سے آگاہ کیا۔دوسری طرف تاجروں نے کاروبار کرنے کے ماحول کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی تجاویز سرکاری ٹیم کے ساتھ شیئر کیں اور یقین دہانی کرائی کہ وہ حکومت کی اصلاحات کے نفاذ میں تعاون کریں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ ٹیکس ادا کرکے اور معاشی طور پر ذمہ دارانہ انداز میں سرمایہ کاری کر کے اپنا کردار ادا کریں گے۔