دریا سے سونا نکالنے پر پنجاب میں پابندی، خیبرپختونخوا میں اجازت

دریائے سندھ سے غیرقانونی طریقے سے سونا نکالنے پر حکومت پنجاب نے مکمل طور پر پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ چند سو میٹر کے فاصلے پر خیبر پختونخوا حکومت نے اس کام کی باقاعدہ اجازت دے رکھی ہے۔

پنجاب کے ضلع اٹک  اور خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں مختلف مقامات پر دریائے سندھ اور دریائے کابل سے غیرقانونی طریقے سے سونا نکالنے کا کام گذشتہ چند برسوں سے جاری تھا تاہم اس مقام پر سونے کے ذخائر کی اطلاعات کے بعد حکومت پنجاب نے یہاں سے سونا نکالنے پرمکمل طور پر پابندی عائد کردی جبکہ دوسری جانب چند سو میٹر کے فاصلے پر خیبر پختونخوا حکومت نے اس کام کی باقاعدہ اجازت دے رکھی ہے۔

سونا نکالنے والی مشینوں کی دریا کے وسط تک رسائی کے لیے بنائے گئے ہموار راستے سونے کے بھاؤ بکنے لگے۔

سابق نگران وزیر معدنیات مراد ابراہیم کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ 32 کلومیٹر کی پٹی پر دریائے سندھ میں 28 لاکھ تولے سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ ان کی مالیت سات سو ارب سے زائد بتائی گئی تھی جس کی تصدیق بعد ازاں وزیر معدنیات پنجاب شیر علی گورچانی نے بھی کی۔

اس کے بعد حکومتی مشینری حرکت میں آئی اور دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے دریا سے سونا نکالنے اور ہیوی مشینری کی نقل و حرکت پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی گئی جس سے ضلع اٹک میں اٹک خورد، باغ نیلاب، گھوڑا مار اور سوجھنڈا کے مقامات پر کام کو فوری طور پر بند کروا دیا گیا۔

ضلعی انتظامیہ، محکمہ معدنیات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حکومتی احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے درجنوں افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے مقدمات درج کیے اور مشینری کو قبضے میں لے لیا۔

دوسری جانب صوبہ خیبر پختونخواہ حکومت نے دریائےسندھ اور دریائے کابل سے سونا نکالنے کے کام کی باقاعدہ اجازت دے رکھی ہے جہاں مختلف مقامات پر لاتعداد بھاری مشینیں اور محنت کش افراد دن رات سونا نکالنے میں مصروف ہیں۔

صوبہ خیبرپختونخواہ میں خیر آباد کے مقام پر سونا نکالنے کے کام سے منسلک اسعد اللہ بتاتے ہیں کہ یہاں وہی لوگ کامیاب ہیں جو دریا سے سونا نکالنے کے کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، ناتجربہ کار لوگوں کومالی نقصان کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ چوبیس گھنٹے مسلسل چلنے والی مشینوں اور مزدوروں کا ایک دن کا خرچ دو ڈھائی لاکھ روپے سے زائد ہوتا ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ یہاں مختلف ٹھیکیدار کام کررہے ہیں جن کے ساتھ سونا نکالنے کی ماہر اور تجربہ کار ٹیم موجود ہے۔

’ایک دن میں دو سو گرام سونا نکالنے میں بھی لوگ کامیاب ہوئے اور کچھ سارا دن قسمت آزمائی کرنے کے باوجود ایک دن کا خرچ بھی پورا نہیں کر پاتے۔ ‘

سونا نکالنے کے کام سے جڑے ایک دلچسپ کاروبار کے متعلق انہوں نے بتایا کہ دریا میں بھاری مشینری اتارنے کے لیے پہلے ہموار راستے بنائے جاتے ہیں جن کو رمپ کہتے ہیں، جو دریا میں سو میٹر سے زائد لمبائی میں ہوتے ہیں جو پانچ لاکھ سے پندرہ لاکھ روپے میں فروخت ہوتے ہیں۔ 

مختلف لوگ یہاں صرف رمپ بنانے کا کام کرتے ہیں جو چار سے پانچ دن میں تیار ہوتا ہے دریا میں بھاری مشینوں (شاول) کی مدد سے ٹنوں مٹی اور پتھروں کی بھرائی کر کے ایکسیویٹر مشینوں کے لیے راستہ بنایا جاتا ہے سونا نکالنے والے ٹھیکیدار سب سے پہلے اس کچے سڑک نما رستے کی خریداری کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ بتاتے ہیں کہ بعض اوقات سونا نکالنے والی مشینوں اور افراد کے ساتھ حادثات بھی رونما ہو جاتے ہیں، ایسا ہی ایک حادثہ دو روز قبل پیش آیا، کروڑوں روپے کی ایکسیویٹر مشین سونا نکالنے کے دوران دریا میں جا گری جانی نقصان تو نہیں ہوا مگر دو دن سے اس ایکسیویٹر مشین کو نہیں نکالا جا سکا۔

ایبٹ آباد کے رہائشی ظاہر شاہ نے بتایا کہ گذشتہ سال کی نسبت اس سال سونا کم نکلا ہے چند مشینیں دس گھنٹے چلی لیکن سونا دو رتی بھی نہیں نکلا اور خرچ لاکھوں روپے ہو گیا۔ دریا کنارے درجنوں مشینیں بند کھڑی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بہت سے ایکسیویٹر مشینیں سونا نہ نکلنے کی وجہ سے ٹھیکیداروں نے کھڑی کر دیں، کچھ خراب ہیں اور چند ایک کرائے پر دستیاب۔

یہاں ملک کے بیشتر علاقوں سے لوگ آتے ہیں کرائے پر مشینیں لےکر اپنی قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ 

کرائے پر دستیاب ایکسیویٹر مشین حاصل کرنے کےلیے چھ سے آٹھ لاکھ روپے ایڈوانس اداکرنا پڑتے ہیں، 50,000 سے زائد ڈیزل کا خرچ اور مشین کا یومیہ کرایہ بھی 50,000 سے زائد ہے۔

سونا نکالنے والے محنت کش اور کاریگر عملے کی اجرت اور دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔

حماد خان اور سلیمان دونوں دوست اور سونا نکالنے کے کام میں شراکت دار ہیں جو گذشتہ چند سالوں سے اس کام سے وابستہ ہیں وہ بتاتے ہیں کہ دس سے 15 گرام تک یومیہ سونا نکال لیتے ہیں جس سے مشین اور عملے کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے۔

’گذشتہ سیزن میں ہم نے یہاں سے ساڑھے سولہ سو گرام سونا نکالا تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں بعض اوقات ہفتہ دس دن بھی خاطر خواہ سونا نکالنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات دو تین گھنٹوں میں ہی اگلی پچھلی ساری کسر نکل جاتی ہے۔

خیر آباد کے دیہاڑی دار محنت کش عامر بھی سونا نکالنےکا کام کرتے ہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ موسم گرم میں کھیتوں میں کام کرتے ہیں جبکہ موسم سرما کا سیزن سونے کی تلاش میں یہاں دریا پر دیہاڑی لگاتے ہیں سارا دن دریا کی ریت کو چھان کر سونے کے چھوٹے چھوٹے ذرات اکھٹے کرتے ہیں۔

’کبھی رتی اور کبھی گرام دو گرام سونا بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ دو ہزار، پانچ اور دس ہزار روپے تک بھی ایک دن کا کما لیتے ہیں یہ سب قسمت کی بات ہے۔‘

محنت کش نیک بادشاہ قریبی علاقہ نظام پور سے خیر آباد سونے کی تلاش میں آتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس کام کا زیادہ تجربہ نہیں ہے ابھی سیکھ رہا ہوں ایک ہزار سے 15 سو روپے تک ایک روز کے کما لیتا ہوں۔

محکمہ معدنیات پنجاب کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دریائے سندھ میں سونے کے وسیع ذخائر صدیوں سے موجود ہیں۔

چند سال قبل چینی کمپنی نے دریا سے ریت اور بجری نکالنے کا ٹھیکہ لیا۔ انہوں نے یہاں سے ریت اور بجری کے ساتھ بھاری مشینوں کی مدد سے بڑے پیمانے پر سونا نکالنا شروع کر دیا۔

مقامی لوگ ان کے ساتھ کام کرتے تھے اس لیے جلد ہی سارے علاقے کے لوگوں کو اس کی خبر ہو گئی۔

جن مقامی افراد کی ملکیتی زمینوں سے دریا کا گزر تھا اور وہاں کان کنی کی جاری تھی وہ عدالتوں میں چلے گئے کہ یہاں سے سونا نکالا جا رہا ہے ہمیں مالکانہ (رائلٹی) ریت بجری نہیں بلکہ سونے کی مد میں دیا جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سونے سمیت دیگر قیمتی معدنیات کا خزانہ دریا کی گہرائی میں تیس چالیس میٹر گہرائی میں موجود ہے دریا پر جتنی بھی ایکسیویٹر مشینیں سونا نکالنے میں مصروف ہیں وہ دریا کی اس گہرائی تک کبھی بھی نہیں پہنچ سکیں گی اس کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جائیں اور جدید مشینوں اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے دریا کی گہرائی میں صدیوں سے پوشیدہ ان خزانوں تک رسائی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔

ڈپٹی کمشنر اٹک راؤ عاطف رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ 144 نافذ العمل ہونے کے بعد ضلع اٹک کی حدود میں سونا نکالنے پر مکمل طور پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

’قانون کی خلاف ورزی کرنے والے عناصر کے خلاف بلاتفریق کارروائیاں کر کے اقدامات کیے گئے، جس پر وزیراعظم آفس اور وزیر اعلیٰ آفس نے بھی ہمارے کام کو سراہا۔‘

بعض شہریوں نے حکومت پنجاب کی جانب سے دفعہ 144 نافذ کرنے اور سونا نکالنے پر پابندی کرنے جیسے اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ایڈووکیٹ ثاقب شاہ زیب اعوان کا کہنا تھا کہ ’حکومت پنجاب نے سونا نکالنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ کچھ ہی دور، پل کے اس پار خیبر پختونخواہ حکومت نے اسی کام کی باقاعدہ اجازت دے رکھی ہے۔

’میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب حکومت کو بھی چاہیے کہ یہاں اس کام کی اجازت دیں اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کریں۔ اس سے مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر آئیں گے اور صوبے کو ریوینیو کی مد میں اربوں روپے بھی حاصل ہوں گے جس سے یہاں خوشحالی آئے گی اور علاقہ مکینوں کا معیار زندگی بھی بہتر ہو گا۔‘

ریٹائرڈ سکول ٹیچر سید مونس رضا نے بھی سونے نکالنے پر پابندی جیسے حکومتی اقدامات کو غلط فیصلہ قرار دیا ان کا کہنا تھاکہ جیسے حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ دریائے سندھ میں اٹک کے مختلف مقامات پر سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ 

’اٹک ایک ترقی پذیر ضلع ہے یہاں سونے کے وسیع ذخائر کا دریافت ہونا کسی نعمت سے کم نہیں۔ حکومت پنجاب کو چاہیے کہ فی الفور سونا نکالنے پر عائد پابندی کے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ یہ خزانہ صوبہ پنجاب اور ضلع اٹک کے باسیوں کا حق ہے اس کو کسی صورت غصب نہیں کرنا چاہیے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ سونے کے یہ ذخائر نعمت خداوندی ہیں اس کو ضائع کرنا ظلم کے مترادف ہے۔ اس کام کے لیے قانون سازی کی جائے تاکہ یہاں کا پسماندہ اور غربت کی چکی میں پسا ہوا طبقہ خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات