’پولیٹلکل ایکٹیوازم کے حوالے سے 2024 پر نظر ڈالیں تو یہ سال پاکستان کی خواتیں کے لیے دبنگ سال رہا، یہ ماننا ہے جینڈر ایکسپرٹ ریحانہ شیخ کا۔ چاہے وہ ماہ رنگ بلوچ کی مزاحمتی تحریک ہو یا محترمہ مریم نواز کا پنجاب کا وزیر اعلی منتخب ہونا۔
لیکن برسوں سے لوگوں کے گھروں میں کپڑے دھوتی استری کرتی اور روٹیاں پکاتی سعدیہ کا ماننا ہے کہ ’اس سال بھی میری وہی مجبوریاں تھیں، جو گذشتہ کئی سالوں سے میرے کندھوں پہ بھاری بوجھ کی طرح تھیں۔ وہ اب بھی جمی رہیں اور صحت خرابی کی طرف مائل ہے۔‘
سعدیہ کی زندگی میں صنفی اعتبار سے خوش آئند یہ رہا کہ ان کی بیٹی نے 9ویں جماعت 80 فیصد نمبروں سے پاس کی۔ ’میں بیٹی کو اپنی مرضی سے اڑنے کے لیے پر دینا چاہوں گی۔‘
سینیئر صحافی و براڈکاسٹر علی احمد خان کا بھی یہ ماننا ہے کہ ’خواتین کے اس طبقے کو ’اپ لفٹ ‘ کی اشد ضرورت ہے، جہاں وسائل اور تعلیم کی محرومی برسوں سے خواتین کا منہ چڑا رہی ہے اور ہر بار جب حکومت تبدیل ہوتی ہے یہ خواتین اسی امید پہ اپنے شہروں کے بس یا ٹرین کے ٹکٹ لے کر جوق در جوق ’ووٹ‘ ڈالنے جاتی ہیں کہ اب ’تبدیلی‘ آئے گی لیکن کچھ زیادہ نہیں بدلتا۔‘
دوسری طرف کراچی چنیسر ہالٹ کی بانو بی بی کا کہنا تھا کہ میں روز ’20 روپے فی کپڑا استری کیا کرتی تھی، اب لانڈری کے مالک نے 50 روپے فی کپڑا کر کے میرے وہی 20 روپے رکھے ہیں، لیکن مہنگائی کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ شوہر خرچوں کے بوجھ تلے مزید دب گیا ہےا ور رات کو مجھے مارنا، زبردستی کرنا اکثر بھول جاتا ہے یا یہ مہنگائی کا مجھ پہ کرم ہے۔‘
وورلڈ اکنامک فورم کی جینڈر کے حوالے سے رپورٹ کو دیکھیں تو تعلیم، گورننس، صحت اور معاشی لحاظ سے پاکستان میں عورتوں کی صورت حال میں کوئی بہتر تبدیلی نہیں آئی۔
دوسری طرف بی بی سی کی ’انسپائرنگ خواتین‘ کی فہرست میں پاکستان سے ’ گلوکارہ اور ایکٹیوسٹ حدیقہ کیانی اور مزاحمتی بلوچ تحریک کی ماہ رنگ بلوچ کے نام شامل ہونا ایک مثبت زاویہ ضرور ہے، لیکن مقامی طور پر شاید ان کو وہ پہچان نہیں مل پائی، جو ان کا حق ہے۔
لکھاری صنوبر ناظر نے بھی انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے یہی کہا کہ ’ماہ رنگ بلوچ اورحدیقہ کیانی سماجی اعتبار سے اپنے اپنے میدانوں میں انتھک مزاحمت کو جھیلتی اور اپنے نظریات کو ڈنکے کی چوٹ پہ پرامن انداز میں رجسٹر کروانے والی مثالی خواتین ہیں جنہیں مقامی طور پہ ستائش ملنی چاہیے۔‘
عورت کی شعوری اور معاشی ترقی صحت مند معاشرے کی علامت ہوتی ہے اور یہ علامت ابھی کچھ گوشوں میں ہمارے ملک میں جنم لیتی، سانس لیتی نپے تلے قدموں سے پنپتی ملتی بھی ہے اور کچلی بھی جاتی ہے۔
پاکستانی میڈیا جن میں ہمارا سوشل میڈیا ہو یا ٹی وی چینلز، سبھی پڑھی لکھی نوکر پیشہ خواتین کے وہ کردار سامنے رکھتے ہیں، جو شاید ایک فرضی معاشرے کی مثبت یا منفی عکاس ہوں لیکن ’گراس ُروٹ‘ کی سطح پہ جس ترقی کی شعوری ضرورت ہے وہ کردار فکشن یا اصل میں کم نظر آتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قائد اعظم یونیورسٹی کی محترمہ سلمیٰ ملک اور جیو ٹی وی کی سینیئر پروڈیوسر منزہ صدیقی نے انڈیپینڈنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے چند اہم نکات کی طرف نشاندہی کی: ’2024 کے لحاظ سے مختلف صنفی پیمانوں سے اندازہ ہوتا کہ پاکستان میں خواتین کے لیے 2024 گذشتہ چند برسوں کی نسبت معاشی، سماجی، تعلیمی اور صحت کے اعتبار سے کچھ سازگار نہیں تھا۔
’شہری علاقوں میں بچیوں کو انرولمنٹ کے مواقعے مل رہے ہیں اور وہ میچیور ہیں، لیکن ہم یہ نہیں دیکھ پا رہے کہ یہ بہت کم تعداد ہے اور بڑے پیمانے پر ہم پیچھے ہیں۔ 2024 میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پورے ملک میں سب سے زیادہ سندھ میں آنر کلنگز میں اضافہ ہوا۔ مریم نواز کا ایک بڑے صوبے کا وزیر اعلی منتخب ہونا خوش آئند ہے لیکن یہ سفر ابھی بہت طویل ہے اور اس کے لیے شعوری کوششوں کا تسلسل اہم ہے۔‘
عورت فاؤنڈیشن کے سربراہ نعیم مرزا کا ماننا ہے کہ ’2024 پاکستان میں وہ سال رہا کہ جب ملک کے ایک صوبے کی وزیر اعلی بھی خاتون منتخب ہوئیں، ایک صوبے کی اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر بھی خاتون بنیں۔ دیکھا جائے تو یہ بھی ملکی تاریخ میں اتنا ہی اہم ہے جتنا محترمہ بینظیر بھٹو کا پاکستان ا ور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننا تھا۔
’ان تینوں کے درمیان مشترکہ کامیابی عوامی مینڈیٹ لے کر ان عہدوں تک پہنچنا بھی تھا۔ خواتین اعلی عدالتوں میں جج بھی متعین ہوئیں اور خواتین نے عام انتخابات میں نامساعد حالات کے باوجود بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا، لیکن یہ بھی غور طلب ہے کہ اس بار ملک میں منتخب شدہ خواتین تعداد میں سب سے کم رہی ہیں۔ اعلیٰ ترین تقرریاں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتیں جب تک ترقی کی ابتدا نچلی سظح سے نہ کی جائے۔‘
یاد رہے کہ اس وقت ’قومی کمیشن برائے حقوق نسواں کی چیئرپرسن کا عہدہ نصف برس سے خالی پڑا ہے۔ ان حالات میں عورتوں کی فلاح و ترقی کے حکومتی نعرے محض الفاظ کا جمع خرچ لگتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔