جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے دعوی کیا ہے کہ دھرنا کیس اور نظرثانی کی درخواستوں کے دوران لندن میں ان کے موکل کی جاسوسی کی گئی۔
پیر کو سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں لارجر بینچ نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس ختم کرنے سے متعلق دائر آئینی درخواستوں کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران دائر ریفرنس کے طریقہ کار پر بحث کی گئی اور وکیل صفائی منیر اے ملک نے ریفرنس دائر کرنے کے طریقے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ قدم بدنیتی پر مبنی تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ دھرنا کیس اور نظرثانی کی درخواستوں کے دوران لندن میں جسٹس عیسیٰ کی جاسوسی کی گئی۔
سماعت کی ابتدا میں وکلا رہنما حامد خان نے عدالت سے استدعا کی کہ ملک میں جاری آزادی مارچ کی وجہ سے راستے بند ہیں اور دوسرے شہروں سے وکلا سپریم کورٹ نہیں پہنچ پائے لہذا سماعت آزادی مارچ کے بعد رکھی جائے لیکن عدالت اور اٹارنی جنرل نے اس تجویز کی مخالفت کی اور جسٹس بندیال نے کہا بینچ پورا موجود ہے، شکایت کنندہ کے وکیل بھی موجود ہیں لہذا سماعت آج ہی ہو گی۔
انہوں نے کہا ’یہ عام کیس نہیں۔ یہ ہمارے ایک معزز جج کا کیس ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ان کا ٹرائل کیوں ہورہا ہے۔ منیر اے ملک نے صحیح کہا کہ یہ ٹرائل سپریم کورٹ کا ٹرائل ہے۔‘
جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں نکتہ اُٹھایا کہ صدر اور وزیراعظم تک شکایات پہنچنے سے قبل شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دیے گیے، وہ شواہد اکٹھے کرنے کی اجازت کس سے لی گئی؟
ان کا کہنا تھا ڈائریکٹر ایف آئی اے رضوان نے جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کا ریکارڈ نادرا سے چیک کرایا، نہ صرف یہ بلکہ ایف آئی اے نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو جسٹس فائز عیسیٰ کی ٹریول ہسٹری بھی فراہم کی۔
انہوں نے کہا 10 مئی سے قبل یہ ساری معلومات حاصل کی گئیں، 10 مئی کو وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے وزیر قانون کو خط لکھا۔
اس پر جسٹس منظور ملک نے کہا ’آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ شہزاد اکبر نے جج کے خلاف ابتدائی تحقیقات وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر کیں؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
منیر اے ملک نے نقطہ اُٹھایا کہ ریفرنس میں الزام یہ نہیں کہ جسٹس عیسیٰ جائیداد کے مالک ہیں،ریفرنس میں جائیداد کے بے نامی دار ہونے کا الزام بھی نہیں لگایا گیا بلکہ ریفرنس میں الزام ہے کہ جائیدادیں اہلیہ اور بچوں کے نام ہیں۔
اس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا ریفرنس میں نہیں لکھا کہ اہلیہ اور بچے جسٹس عیسیٰ کے زیر کفالت ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے ایف آئی اے نے مکمل تحقیق نہیں کی بلکہ فرض کر لیا کہ جائیداد جسٹس عیسیٰ کی ہے۔
منیر اے ملک نے کہا معاملہ یہ ہے کہ صدر نے وزیر اعظم کی ایڈوایس پر اپنی رائے قائم کی ہے۔اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا 'آپ کا موقف ہے وزیر اعظم کی اجازت کے بغیر ان کے دفتر میں کارروائی ہوتی رہی؟ ‘
منیر اے ملک نے جواب دیا کہ وزیراعظم کی سفارش پر صدر نے وزارت قانون کے ذریعے ریفرنس دائر کیا، صدارتی ریفرنس 23 مئی 2019 کو سپریم جوڈیشل کونسل بھجوایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ججز کےخلاف شکایت صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہی ہو سکتی ہے۔
بینچ کے رکن جسٹس فیصل عرب نے پوچھا کہ کیا صدارتی ریفرنس کے لیے وزیر اعظم کی سفارش ماننا لازمی ہے؟ منیر اے ملک نے جواب دیا کہ وزیر اعظم نہیں وفاقی کابینہ کو سفارش کا اختیار ہے،وزیراعظم صدر کو براہ راست ہدایت نہیں دے سکتے کیونکہ ججز کے خلاف شکایت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل ہی واحد فورم ہے۔
دورانِ سماعت ججز مختلف اوقات میں سوال کرتے رہے اور منیر اے ملک ہر سوال کا جواب دیتے رہے۔ کمرہ عدالت میں موجود دیگر وکلا اور سینیئر عدالتی صحافیوں نے کہا کہ جسٹس عیسی ٰکے وکیل کی تیاری بھرپور اور ٹھوس ہے۔ منگل تک سماعت ملتوی کرنے سے قبل بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی جسٹس عیسیٰ کے وکیل کی تعریف کرتے ہوئے کہا ’ آج آپ نے اچھے دلائل دیے ۔‘