ہال روڈ پر واقع لاہور کی سب سے بڑی الیکٹرونکس مارکیٹ سے سات سال قبل لاپتہ ہونے والے تاجر کا سراغ تو نہ مل سکا، تاہم ان کے اہل خانہ کو کچھ دن پہلے ایک خط ضرور موصول ہوا ہے جس میں ڈی وی ڈی پلیئرز، گانے سننے اور فلمیں دیکھنے کی شرعی ممانعت سے متعلق احادیث کے حوالے دیے گئے ہیں۔
خط میں ایسے کاروبار سے منسلک افراد کو دی جانے والی اسلامی سزائیں بھی بتائی گئی ہیں۔
فہد مقصود نامی تاجر ہال روڈ پر ’مقصود ٹریڈرز‘ کے نام سے ڈی وی ڈی پلیئرز اور سی ڈیز کا کاروبار کرتے تھے، جو 2012 میں میں مغرب کے وقت اپنی دکان کے قریب سے لاپتہ ہوئے تھے۔
فہد مقصود کے بھائی خرم مقصود کے مطابق انہیں لاپتہ ہوئے اتنا عرصہ ہوچکا ہے لیکن پولیس یا سکیورٹی ادارے ابھی تک انہیں تلاش نہیں کر پائے اور اس صورت حال میں اس خط نے ان کے خاندان کو مزید پریشان کردیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس اس مقدمے کی فائل بند کر چکی ہے جبکہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن میں پیش ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
خرم مقصود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے گھر کے پتہ پر موصول ہونے والا خط قاری شفیق نامی شخص کی جانب سے بھیجا گیا ہے اور اس کے متن میں احادیث کے حوالے دے کر شرعی طور پر ڈی وی ڈی پلیئرز اور سی ڈیز کی فروخت اور ان کے استعمال کی ممانعت کی ہدایت کی گئی ہے، جس سے لگتا ہے کہ ان کا تعلق کسی مذہبی تنظیم سے ہوسکتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ خط پر ان کے بھائی فہد مقصود کا نام اور گھر کا پتہ درج کیا گیا ہے جبکہ تحریر میں تصاویر کھینچنے کو بھی اسلام میں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
خرم مقصود نے بتایا کہ انہوں نے بھائی کے لاپتہ ہونے کے بعد واقعے کا مقدمہ متعلقہ تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں درج کروایا، پھر آٹھ ماہ تک تھانے کے چکر لگائے، جس کے بعد کیس سی آئی اے کو منتقل ہوگیا۔ پھر اس کے بعد یہ کیس لاپتہ افراد کے لیے بنائے گئے قومی کمیشن میں چلا گیا۔’پہلے ہم کمیشن کے سابق سربراہ جاوید اقبال اور اب جسٹس (ر) فضل الرحمٰن کے سامنے پیش ہو رہے ہیں لیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھائی کا کچھ معلوم نہیں ہوا۔ کمیشن میں متعلقہ اداروں کے نمائندے پیش ہوکر ہر بار کوشش کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں اور بات ختم۔ ہمارا پورا خاندان کوششیں کرکے تھک چکا ہے۔‘
خرم کے مطابق: ’بھائی کے لاپتہ ہونے کے بعد ان کی بیٹی پیدا ہوئی جس کی عمر بھی سات سال سے زائد ہوچکی ہے لیکن اس معصوم بچی نے اپنے باپ کی شکل تک نہیں دیکھی، صرف تصویروں میں دکھا کر اس کا دل بہلا رہے ہیں۔ والدہ کی رو رو کر بینائی متاثر ہوچکی ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ (فہد) زندہ بھی ہے یا نہیں۔‘
پاکستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی چیلنج کیوں؟
لاپتہ ہونے والے تاجر فہد مقصود کا واقعہ واحد نہیں بلکہ ایسے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی سربراہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 2005 میں اپنے خاوند مسعود جنجوعہ کے جبری لاپتہ ہونے پر ان کی بازیابی کے لیے جدوجہد شروع کی تو کچھ عرصہ بعد بے شمار لاپتہ افراد کے لواحقین ان کے ساتھ جڑ گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈیفنس ہیومن رائٹس کے پاس لاپتہ افراد کے کل 27 سو کیسز آئے جن میں سے اب تک ساڑھے نو سو کیس حل ہوئے، کئی افراد کو پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا، متعدد کے خلاف مقدمات درج کرکے انہیں عدالتوں میں پیش کردیا گیا اور بعض گھروں کو واپس آگئے لیکن کوئی بھی ادارہ اس معاملے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آمنہ جنجوعہ نے کہا کہ معاملے کو لٹکانے کے لیے حکومت نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کمیشن بنایا جن کے پاس نو ہزار سے زائد کیسز ہیں اور وہ بیشتر کیسوں کے حل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن حقائق اس سے مختلف ہیں کیونکہ بیشتر لاپتہ افراد کا نہ تو سراغ لگایا گیا اور نہ ہی وہ وپس آئے، تاہم کئی کیسوں میں بتادیا گیا کہ جبری لاپتہ ہونے والے افراد فائرنگ میں مارے گئے یا اداروں نے انہیں حراست میں لے رکھا ہے۔ اسی طرح ہر ماہ اوسط آٹھ سو کے قریب لاپتہ ہونے والوں کی درخواستیں آتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کمیشن بااختیار نہیں، اسی لیے ادارے ان کے احکامات نہیں مانتے کیونکہ کمیشن نے تو رپورٹ سپریم کورٹ کو جمع کرانی ہوتی ہے جو کئی کئی ماہ بعد جمع کرائی جاتی ہے، دوسرا یہ کہ حساس اداروں کی کارروائی یا ان کی تحویل میں موجود لاپتہ افراد کے بارے میں کوئی واضح حکم جاری نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ ان کے ورثا بھی دربدر کی ٹھوکریں کھا کر مایوس ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔
آمنہ جنجوعہ سمجھتی ہیں کہ جب تک لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے موثر حکمت عملی کے ذریعے لائحہ عمل نہیں بنایا جاتا، یہ معاملہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں لاپتہ افراد کی صورت حال پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور اقوام متحدہ اسی لیے آئے روز تحفظات کا اظہار کرتے ہیں کہ یہاں جبری یا کسی بھی طرح لاپتہ ہونے والوں کے لیے قابل عمل طریقہ کار موجود ہی نہیں۔