کرونا (کورونا) وائرس کی وبا دنیا کے تقریباً 195 ممالک میں پھیل چکی ہے، جس میں پاکستان اور افغانستان بھی شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق افغانستان کی پاکستان کے ساتھ سرحد اور ایران سے افغانستان جانے والے زائرین مستقبل میں افغانستان سمیت پاکستان میں بھی کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق افیئرز کی رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ افغانستان میں اگر کرونا وائرس پر کنٹرول نہیں پایا گیا تو یہ وہاں کے عوام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ افغانستان میں کرونا وائرس کے ٹیسٹ نہ ہونے کے برابر ہیں، ابھی تک وہاں صرف 1100 ٹیسٹ کیے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں 152 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہیں۔
اس رپورٹ میں درج ہے کہ 30 مارچ تک کے اعداد و شمار کے مطابق ایران میں38 ہزار سے زائد لوگوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے لیکن افغانستان کے صوبے ہرات میں ایران سے متصل بارڈر اسلام قلعہ دوغارون دونوں جانب سے اب بھی عام لوگوں اور کمرشل گاڑیوں کے لیے کھلا ہے۔
اسی طرح نمروز میں ملک کراسنگ صرف کمرشل گاڑیوں اور رجسٹرڈ افغان شہریوں کے لیے کھلی ہے، لیکن بڑی تعداد میں غیر رجسٹرڈ زائرین بھی اسی بارڈر کے ذریعے افغانستان جا رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ کے مطابق گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افراد سرحد پار کرکے ایران سے افغانستان گئے ہیں جس سے افغانستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ زیادہ ہے۔ ایران جانے اور آنے والوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ جشن نوروز بھی ہے جو ایران اور افغانستان میں نئے سال کی مناسبت سے منایا جاتا ہے۔
ایران سے آنے والے زائرین افغانستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ پاکستان میں بھی ابتدا میں ایران سے آنے والے زائرین میں ہی کرونا وائرس کے ابتدائی کیسز سامنے آئے تھے۔ خیبر پختونخوا میں اب تک ایران سے آئے ہوئے 440 زائرین میں سے 57 میں کرونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہیں، 194 کے ٹیسٹ مفی آئے ہیں جبکہ باقی کے ٹیسٹ ابھی آنا باقی ہیں۔
اقوام متحدہ کے اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے خطرے کے پیش نظر ایران کے ساتھ سرحد بند کردی ہے جبکہ پاکستان میں پھنسے کچھ افغان شہریوں کو شاید حکومت کی جانب سے محفوظ راستہ دیا جائے۔ دوسری جانب افغانستان کے صوبہ ننگرہار کی انتظامیہ نے اشارہ دیا ہے کہ وہ طورخم بارڈر سے آنے والے افغان شہریوں کے لیے بارڈر پر قرنطینہ مراکز قائم کریں گے۔
زائرین کی آمد اور افغانستان کے پاس کم وسائل کی وجہ سے کابل حکومت بھی اس اندیشے کا اظہار کر چکی ہے کہ اگر کرونا وائرس پر قابو نہیں پایا گیا تو ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی اس سے متاثر ہو سکتی ہے۔ گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس کے دوران افغانستان کے وزیر برائے پبلک ہیلتھ فیروز الدین فیروز نے بتایا کہ اب تک سب سے زیادہ کرونا وائرس کے تصدیق شدہ کیسز ہرات صوبے میں سامنے آئے ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے حکومت سے دن کے وقت نقل وحرکت پر پابندی، عوام کو گھروں میں رہنے، ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کو بند کرنے اور پبلک ٹرانسپورٹ کو بند کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے تاکہ اس وائرس پر قابو پایا جا سکے۔
فیروز نے بتایا: 'اگر وائرس پر قابو نہیں پایا گیا تو عالمی ادارہ صحت کے مطابق افغانستان میں ایک کروڑ 60 لاکھ افراد کرونا وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔'
افغانستان میں کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟
افغان صحافی ہیں اور کرونا وائرس کے حوالے سے افغانستان میں معاملات پر نظر رکھنے والے انیس الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ ہر کسی کو معلوم ہے کہ افغانستان میں صحت کے حوالے سے اقدامات اتنے مضبوط اور فعال نہیں ہیں اور علاج کے سلسلے میں زیادہ تر لوگ بھارت یا پاکستان جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اب تک افغان صوبے ہرات میں کرونا وائرس کے جو 154 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، ان میں سے120 ایران سے آئے ہوئے زائرین میں سامنے آئے اور اسی وجہ سے ہرات میں جزوی طور پر لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا: 'کرونا کے حوالے سے آگاہی کافی حد تک موجود ہے لیکن پھر بھی مزید آگاہی کی ضرورت ہے کیونکہ زیادہ تر لوگ اب بھی سمجھتے ہیں کہ کرونا وائرس سے مسلمان متاثر نہیں ہو سکتے یا پھر وہ کہتے ہیں کہ دعا کرنے سے کرونا وائرس کسی کو کچھ نہیں کہہ سکتا۔'
انیس الرحمٰن کے مطابق افغانستان میں زیادہ تر صوبوں کے دارالحکومت حکومت کے کنٹرول میں ہے اور جہاں پر کیسز رپورٹ ہوئے ہیں وہاں پر جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ افغانستان نے ایران کے ساتھ اپنی سرحد کیوں بند نہیں کی تو انہوں نے بتایا کہ ایران سے آئے ہوئے زائرین یا عام لوگ جو ایران سے آتے ہیں انہیں روکا نہیں جاسکتا کیونکہ ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے تاہم جو لوگ رجسٹرڈ ہیں، انہیں اب افغانستان آنے کے بعد قرنطینہ میں رکھا جا رہا ہے۔
تاہم انیس کے مطابق مسئلہ غیر رجسٹرڈ زائرین کا ہے جو دیگر راستوں سے یا غیر قانونی طور پر ایران آتے جاتے ہیں اور ان کو ٹریس کرنا حکومت کے لیے مشکل ہوتا ہے۔
'افغان حکومت اور طالبان ساتھ مل کر کام کریں'
انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے افغانستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے افغان حکومت اور طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ ساتھ مل کر اس وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کریں کیونکہ اس سے افغانستان میں کروڑوں لوگوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
افغانستان میں کرونا وائرس کے حوالے سے جاری ہونے والی رپورٹ میں ہیومن راٹس واچ نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان میں زیادہ تر مہاجرین اور دیہاتی علاقوں میں رہنے والے لوگ، جہاں صحت کی سہولیات ناپید ہیں، کے لیے کرونا کی وبا بڑا خطرہ ہے اور حکومت اور طالبان کے مابین بات کرنے سے وہاں پر انسانی حقوق کی تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت ملنی چاہیے تاکہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر اقدامات شروع کیے جاسکیں۔
رپورٹ میں تنظیم کے ایشیا کے ڈائریکٹر پیٹریکیا گوسمین کے حوالے سے لکھا گیا ہے: 'کرونا وائرس سے کروڑوں افغان شہریوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے لیکن حکومت اور طالبان ایک دوسرے کی مخالفت میں مصروف ہیں۔ دونوں فریقین کو اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے ورنہ حالات بے قابو ہو جائیں گے۔'