یہ کہا جائے تو یقینی طور پر غلط نہیں ہو گا کہ جتنے خوامخواہ کے ڈرامائی موڑ اور تجسس بھارتی ڈراموں میں ملتا ہے شاید ہی کہیں اور اس کا نظارہ دیکھنے کو ملے۔
مردہ زندہ ہو جاتا ہے، یادداشت بچے کے کھلونے کی طرح کھو بھی جاتی ہے اور اس سے بھی زیادہ آسانی سے اچانک لوٹ آتی ہے، ظالم اور سنگ دل ساس یا بہو، سازشی چال چلتے ہوئے موم بننے میں دیر نہیں لگاتیں، دکھ سکھ کا ساتھی شریک سفر نگاہیں پھیرنے میں ہر دم تیار رہتا ہے، کوئی نہ چونکنے والی بات بھی کہے گا تو سب بھائی لوگ ایسے پلٹ پلٹ کر ’سلو موشن‘ میں دیکھیں گے کہ آ پ سر پیٹتے رہ جائیں۔
یہاں تک کہ دنیا کا ہر تہوار ہر ایونٹ ان ڈراموں میں کسی نہ کسی طرح چپکا دیا جاتا ہے۔ غرض چیونگم کی طرح اس قدر کہانی کو کھینچا جاتا ہے کہ آپ اگر پچاس قسطوں بعد بھی کسی ڈرامے کا دیدار کریں گے تو یہ جوں کا توں ہو گا۔ اب اسے رائی کا پہاڑ بنانے میں مہارت ہی کہی جاسکتی ہے۔ جبھی تو کسی ڈرامے کی ڈھائی سو تو کسی کی ساڑھے تین سو اقساط تو گھر بیٹھے بیٹھے ہوجاتی ہیں۔ ہمارا اپنا خیال ہے کہ ان ڈراموں کے سکرپٹ رائٹر بمشکل سات سے آٹھ صفحات کی ایک قسط لکھتے ہوں گے، باقی تو ساراوقت کبھی حیرت سے تو کبھی غصے سے چونکنے والے ’سلو موشن‘ سے نمٹا لیا جاتا ہو گا۔ یعنی یہ سمجھیں کہ ڈرامے کے ساتھ صحیح معنوں میں ڈرامے بازی ہو رہی ہے۔
نجانے بیٹھے بٹھائے ہمیں کیا خیال آیا اور ذرا یہ ٹوہ لینے کی فکر ہوئی کہ ایسے میں جب پوری دنیا میں کرونا نے سب کو خوف زدہ کرکے گھروں میں بٹھا دیا ہے، تو بھارتی ٹی وی ڈرامے اس مشکل صورت حال میں کس طرح ’ٹک ٹک‘ کر رہے ہوں گے اور جناب دو تین سرفنگ کے بعد ماننا پڑا کہ بھارتی ٹی وی پروڈیوسر کرونا میں بھی ڈرامے بازی سے باز نہیں آئے۔
بیشتر سوپ ڈرامے چونکہ روزانہ نشر ہوتے ہیں اور دکھانا بھی ضروری ہیں۔ اسی لیے پروڈیوسرز حضرات نے ان میں بھی کرونا کا تڑکا لگا دیا ہے۔ خاص کر ایسے میں جب ایک درجن سے زائد بھارتی ٹی وی فنکاروں میں کرونا وائرس کی تشخیص ہو گئی ہے تو پروڈیوسروں نے اس پہلو کو بھی ’کیش‘ کرانے کی ٹھان لی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انٹرنیٹ پر ہی ’زی ٹی وی‘ سے نشر ہونے والا ڈراما ’کم کم بھاگیہ‘ کا ایک منظر خاصا دلچسپ لگا۔ اس میں ہیروئن صاحبہ، ان کی سکھیاں اور یہاں تک کہ ماتا جی بھی فیشن کے تقاضوں سے ہم آہنگ ’فیس ماسک‘ لگا کر محو کلام تھیں۔ اب یہ اور بات ہے کہ اس ایک منظر کے بعد باقی مناظر میں کسی نے ’فیس ماسک‘ کو قریب پھٹکنے نہیں دیا۔ خیال یہی آیا کہ ممکن ہے کہ ان میں فنکاروں میں سے کوئی ایک ضرور کرونا کا مریض ہو۔
ایک اور ڈراما ’گڈن تم سے نہیں ہو پائے گا‘ کا بھی دیدار کر لیا۔ ہیروئن، رشتے داروں کے گھر ’پیا جی‘ کے سنگ آتی ہیں۔ دروازہ کھلتا ہے اور مسٹر اینڈ مسز نہ صرف چہرے پر ماسک سجائے ہوتے ہیں بلکہ ہاتھوں میں دستانے بھی زیب تن کیے ہوئے تھے۔ ان دونوں کے علاوہ کسی نے یہ تکلف اٹھانے کی رتی برابر بھی کوشش نہیں کی۔ ہاں یہ ضرور کیا کہ ان مہمانوں کا استقبال ’سینیٹائزر‘ لگا کر خوب کر دیا گیا۔
ٹی وی سیریز ’تم سے ہے رابطہ‘ کے ہیرو اور ہیروئن کو صرف ڈرائیونگ کے دوران فیس ماسک پہننے کا خیال آیا۔ مناظر تو اس وقت ہائی ریٹنگ سٹار پلس کے ڈراما سیریز ’یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے‘ کے بھی دلچسپ ہیں، جس میں ہیرو اپنے دل کی رانی کو نہ صرف ’ہینڈ سینیٹائزر‘ تھوپتے ہیں بلکہ کوشش یہی رہی کہ کسی بھی صورت ان کے پاس سے کرونا نہ گزرے، ایک ایسا ماسک لگاتے ہیں جسے ہیلمٹ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ ایسی چیز ہم اکثر و بیشتر طبی عملے کو استعمال کرتے ہوئے دیکھتے ہی رہتے ہیں، اور پھر اس کے بعد دونوں اڑاتے ہیں پیار کی پتنگ اور کھو جاتے ہیں پیار کی وادی میں۔
میڈیا رپورٹیں بتاتی ہیں کہ بچن خاندان کے کرونا وائرس میں مبتلا ہو جانے کے بعد اب ٹی وی ڈراموں والوں نے غیر معمولی احتیاطی اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ سپاٹ بوائے، میک اپ مین‘ فنکار اور یہاں تک کہ ہدایت کاربھی چہروں پر ماسک، ہاتھوں میں دستانے اور دبا کر سینیٹائزر کا استعمال کر رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو کوشش تو اچھی ہے آگاہی کی، خاص کر ایسے میں جب ہمارے پاکستانی ڈرامے، ابھی بھی میل میلاپ یا سماجی رابطوں کی کہانیاں دکھا رہے ہیں جو موجودہ ماحول کے برعکس نظر آ رہی ہیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ہماری طرح تو بھارت میں ہوتا نہیں کہ مکمل اقساط کا ڈراما تیار کیا اور پروڈکشن ہاؤس نے کسی بھی چینل کو فروخت کر کے اپنی رقم کھڑی کر لی۔ وہاں تو ہفتے بھر کماؤ اور پھر کھاؤ جیسا رواج عام ہو گیا ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ شعور اجاگر ویڈیو پیغامات دینے کے علاوہ پاکستانی فنکار، پروڈیوسر اور رائٹر حقیقی معنوں میں اپنے ڈراموں کی طے شدہ کہانیوں میں تھوڑا سا وقفہ دے کر ان میں کرونا سے بچنے کے اقدامات کی ہلکے پھلکے انداز میں عکاسی ہی کر دیں۔