امریکہ نے بیجنگ پر کرونا (کورونا) ویکسین کی تحقیق ہیک کرنے کا الزام لگانے کے بعد ہیوسٹن میں چین کے قونصل خانے کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔
محکمہ خارجہ کی ترجمان مارگن اورٹیگس نے بدھ کو ایک ای میل میں بتایا: ’ہم نے ہیوسٹن میں چین کے قونصل خانے کو بند کرنے کا فیصلہ امریکی تحقیق اور نجی معلومات کے تحفظ کے لیے کیا ہے۔‘
چند ماہ قبل کرونا کی وبا پھیلنے کے بعد یہ نیا تنازع اس وقت سامنے آیا ہے جب بیجنگ اور واشنگٹن کے مابین پہلے ہی کشیدگی میں اضافہ جاری ہے۔
امریکی حکام نے منگل کو دو چینی ہیکروں پر کووڈ 19 کی ویکسین کے لیے جاری امریکی تحقیق چوری کرنے کی کوشش کرنے کا فرد جرم عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے پیچھے چینی حکومت کا ہاتھ ہے۔
اپنے ردعمل میں چین نے بدھ کو کہا ہے کہ قونصل خانے کی بندش کشیدگی کو بڑھاوا دینے کا غیر معمولی اقدام ہے اور وہ امریکہ کے جواب کے بغیر جوابی کارروائی کرے گا۔
ایک ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ چین اب ووہان میں امریکی قونصل خانے کو بند کرنے کے احکامات پر غور کر رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چینی حکام کے پاس جمعے تک ہیوسٹن قونصل خانہ بند کرنے کا وقت ہے جس کی عمارت کے عقبی صحن میں کاغذات کو جلتے دیکھا گیا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے کہا کہ (ہیوسٹن میں) چینی قونصل خانہ معمول کے مطابق کام کر رہا ہے تاہم انہوں نے وہاں دستاویزات جلانے کی رپورٹس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
ترجمان نے کہا: ’مختصر وقت کے اندر ہیوسٹن میں ہمارے قونصل خانہ کی یکطرفہ بندش چین کے خلاف کشیدگی میں اضافہ کا بے مثال اقدام ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہم امریکہ سے فوری طور پر اس غلط فیصلے کو واپس لینے کی اپیل کرتے ہیں۔ اگر ہمیں اس غلط راستے پر چلنے پر مجبور کیا گیا تو چین اس کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کرے گا۔‘
وانگ نے امریکی حکومت پر چینی سفارت کاروں اور قونصل خانے کے عملے کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ چینی طلبہ کو دھمکانے، ان سے پوچھ گچھ کرنے، ان کی ذاتی ڈیوائسز ضبط کرنے اور حتیٰ کہ انہیں حراست میں لینے کا بھی الزام عائد کیا۔
ہیوسٹن کے فائر ڈیپارٹمنٹ نے کہا کہ آگ لگنے کی (دستاویز جلانے کے واقعے کے دوران) ابتدائی اطلاعات کے باوجود انہیں قونصل خانے کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔
(اضافی رپورٹنگ: ایسوسی ایٹڈ پریس)
© The Independent