امریکہ اور چین کے درمیان ہر گزرتے دن کے ساتھ تناؤ بڑھتا جارہا ہے، جس کی وجہ سے ایک نئی سرد جنگ کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تاریخی اختلافات تو موجود تھے ہی لیکن اب یہ دونوں طاقتیں خطرناک دور میں داخل ہو رہی ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ چین کے خلاف عالمی سطح پر مہم میں تیزی لائی ہے اور امریکی صدر نے اپنے اتحادی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ چینی ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے کو ٹیلی کام پروجیکٹس سے بے دخل کر دیں۔
یہی نہیں امریکہ بحیرہ جنوبی چین کے تنازع میں بھی بیجنگ کے حریفوں کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔
نومبر کے صدارتی انتخابات کی مہم میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے، جسے وہ اپنی جیت کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم اگر وہ جو بائیڈن سے ہار بھی گئے تو بھی چین کے ساتھ تعلقات میں زیادہ تبدیلی کا امکان نظر نہیں آتا کیونکہ ڈیموکریٹک امیدوار صدر ٹرمپ پر چین کے معاملے میں نرمی برتنے کا الزام لگاتے آئے ہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے بین الاقوامی امور کے پروفیسر سٹیفن والٹ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتیں ایشیا پر غلبہ حاصل کرنے کی چین کی خواہش سمیت ’متضاد سٹریٹجک نظریوں‘ پر ایک طویل مدتی مقابلے میں مصروف ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ چین ٹرمپ کو ایک ’کمزور اور غلطیوں سے بھرپور‘ رہنما کے طور پر دیکھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ وہ امریکہ کے کرونا (کورونا) کی وبا کے ’تباہ کن‘ ردعمل سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
والٹ نے کہا: ’یہ صورت حال کچھ معاملات میں امریکی سوویت سرد جنگ سے مشابہت رکھتی ہے لیکن یہ ابھی اتنی خطرناک نہج تک نہیں پہنچی۔ اس میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ تعلقات میں دباؤ کے باوجود دونوں ممالک اب بھی معاشی مفاد کے لیے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔‘
دنیا بھر میں بیجنگ کے خلاف مہم چلانے والے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے حالیہ ریڈیو انٹرویو میں سرد جنگ کے موازنے کو مسترد نہیں کیا۔
پومپیو کا ماننا ہے کہ مغرب کو چین، خاص طور پر اس کی ٹیکنالوجی سے چھٹکارے کی ضرورت ہے کیوں کہ واشنگٹن کو خدشہ ہے کہ چینی ٹیکنالوجی جاسوسی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر اور امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ اوریانا سکائیلر ماسترو کا ماننا ہے کہ چین کے ساتھ سرد جنگ کی بات کرنا خطرناک ہے۔
انہوں نے کہا: ’چین کے ساتھ صورت حال سرد جنگ کی طرح نہیں ہے۔ مثبت پہلو دیکھا جائے تو چین سے ہماری وسیع وابستگی ہے لیکن منفی بات یہ ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان باقاعدہ جنگ کا امکان سوویت یونین کے ساتھ جنگ سے کہیں زیادہ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ صورت حال کو سرد جنگ کی عینک سے دیکھنا غیر موثر ردعمل کا باعث ہو گا جیسا کہ واشنگٹن بیجنگ کو غلط طور پر نظریاتی خطرہ سمجھ رہا ہے۔
ماسترو نے کہا کہ چین کے پاس امریکی خدشات کے خاتمے کے لیے کافی آپشنز موجود ہیں جیسے وہ بحیرہ جنوبی چین میں ہتھیاروں کے نظام سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔
تاہم ان کے خیال میں ’بیجنگ ایسا نہیں کرے گا کیونکہ وہ بنیادی طور پر امریکی پالیسی کے محرکات سے متعلق غلط فہمی کا شکار ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ امریکہ خطے میں اپنی طاقت میں کمی کے خلاف ردعمل ظاہر کر رہا ہے لیکن امریکہ اس کا بھرپور جواب دے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ایسا کرنا ایک غلطی ہو گی اور یہ ہمیں باقاعدہ جنگ کی طرف لے جاسکتا ہے۔
کچھ سال پہلے کی پالیسی کے برعکس امریکی عہدیدار اب شاذ و نادر ہی کشیدگی میں کمی کی بات کرتے ہیں۔
وسطی ایشیا کے لیے امریکی محکمہ خارجہ کے اعلیٰ عہدے دار ڈیوڈ سٹیل ویل نے کہا کہ انہوں نے بیجنگ میں امریکی دفاعی اتاشی کے طور پر سیکھا کہ چین نے ہر ’قابل ذکر اور ٹھوس اقدام‘ کا بھر پور جواب دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے جب جب چین پر ہانگ کانگ میں ہونے والی بغاوت اور اویغور مسلمانوں پر بڑے پیمانے پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے، بیجنگ نے ہر بار انتقامی اقدامات اٹھائے ہیں۔
اس سب کے باوجود صدر ٹرمپ کو چین کے ساتھ اس تجارتی معاہدے پر عمل درآمد کی امید ہے، جس میں چین نے امریکی سامان کی خریداری میں اضافے کا وعدہ کیا تھا۔
بیجنگ میں رینمن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر شی ین ہونگ کا کہنا ہے کہ دونوں فریق جانتے ہیں کہ چین اب معاہدے پر مکمل عمل نہیں کر سکے گا اور تعلقات میں بہتری کے امکانات کم ہی ہیں۔
شی نے مزید کہا کہ گذشتہ سرد جنگ، نظریے اور حکمت عملی کے حوالے سے دو عظیم طاقتوں کے مابین ٹکراؤ کا باعث تھی، تاہم امریکہ اور چین کے معاملے میں دونوں ممالک منتخب لیکن تیزی سے ایک دوسرے کی کاٹ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’اس تعریف کو استعمال کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ چین اور امریکہ نئی سرد جنگ کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔‘