اگست کا مہینہ شروع ہوا تو ہم نے کمر کسی، سامان باندھا، گاڑیوں کو ایڑ لگائی اور سوات کے علاقے مہوڈنڈ میں ایک جھیل کنارے اتر گئے۔
گرم پہناوے اوڑھے، خیمے لگائے، روکی سوکھی کھائی، چسکیاں لیں، کش لگائے، چہل قدمی کی اور سو گئے۔ اگلی صبح ہم نے خیمے سمیٹے، تسمے کھینچے، کمر باندھی، سامان لادا اور پیدل گلگت کی طرف روانہ ہو گئے۔
تین راتوں، دو بارشوں، بیسیوں چشموں، سیکڑوں پہاڑوں، وسیع و عریض پتھریلے میدانوں، ٹھنڈی ہواؤں اور دریاؤں سے گزر کر ہم ددریلی پاس کے بیس کیمپ میں پہنچے۔ بیس کیمپ میں بارش تھی، ٹھنڈ تھی، ہوائیں تھیں، بادل تھے، تھکن تھی، بھوک تھی اور سوالوں میں لپٹی ہوئی پراسرار سی ایک اکیلی قبر تھی۔ سامنے ہیبت جماتا ہوا ایک پہاڑ تھا جو سرِ شام بلندیوں میں بادل پھونک رہا تھا۔
اگلی صبح بادلوں نے راستہ چھوڑا تو پہاڑ کے سرے پر پہنچ کر ہم نے وادیوں میں چڑھتا اترتا اور گرتا پڑتا ایک سفر کیا۔ چٹانوں اور برفاب جھیلوں کو چار گھنٹوں میں عبور کیا تو سامنے وہ پاس آیا جسے ددریلی پاس کہتے ہیں۔ یہ در اصل ایک پہاڑ ہے جو یاغستان اور بالاورستان کے بیچ حدِ فاصل کی طرح کھڑا ہے۔ میر نے ہزار درد و غم یکجا کیے تو ایک دیوان کیا تھا۔ قدرت نے ہمارے راستے کی ساری چوٹیاں یکجا کیں تو آسمان کو اٹھا ہوا یہ الف پہاڑ تخلیق کیا۔ واپسی کا ہمارے پاس پانی راشن ہے اور نہ راستہ ہے۔ اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔
جی ہی جی میں ہم نے نعرۂ حیدری مارا اور چل پڑے۔ ہمارے چترالی رہبر پہاڑوں پر اس پہاڑ پر بھی اس قدر سہولت سے چڑھے جا رہے تھے جیسے مار خور کی ٹانگیں انہوں نے کرائے پر لی ہوئی ہوں۔ ہم ابھی پہاڑ کی چھاتی سے نیچے کہیں ہانپ اور کانپ رہے تھے کہ اوپر پہاڑ کے کی چوٹیوں سے سیٹیاں سنائی دینے لگیں۔
سر اٹھا کے دیکھا تو جوان پاکستان کا جھنڈا لہرا کر اپنی فتح کا جشن منا رہے تھے۔ دو چار قدم ہم اور رینگے تو پہاڑ کے اس پار سے اذان سنائی دینے لگی۔ ایک پل کو طبعیت جی اٹھی کہ ہم آبادی کے قریب آ گئے ہیں۔ اب تو ہم فون کے ذریعے اپنے اپنے گھروں پر خیر خیریت کا ایک ایک فون بھی کر سکتے ہیں۔ ایک رہبر نیچے آیا تو میں نے پوچھا، ’میں نے ابھی اذان سنی ہے کیا آگے کوئی آبادی آ رہی ہے؟‘
پتہ چلا کہ پوٹروں کی یہ روایت ہے کہ چوٹی سر کرنے کے بعد پہلے یہ جھنڈا لہراتے ہیں پھر اذان دیتے ہیں۔
قافلے کا آخری سپاہی پہنچا تو سب نے باری باری تیز ہوا میں پھڑپھڑاتے ہوئے جھنڈے کے سائے میں تصویریں کھنچوائیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ میں نے تصویر کھنچوانے کے بعد ایک رہبر سے کہا، ’اگر میں جھنڈے کے ساتھ تصویر نہ کھنچواتا تو کیا ہوتا؟‘
بولا، ’کچھ نہیں ہوتا لیکن جھنڈے کے ساتھ یہ ہے کہ لوگ پھر آپ کو ذرا عزت دیتے ہیں۔‘
ساتھ ہی کھڑے دوسرے رہبر نے کہا، ’بغیر جھنڈے کے تو آپ کے ٹو بھی سر کرلیں تو لوگ سمجھتے ہیں آپ نے بس لوفری ہی کی ہے۔ جھنڈا آپ نیچے مہو ڈنڈ کے آس پاس کسی پہاڑی پر بھی لگا لو تو لوگ سمجھتے ہیں بندہ کسی عظیم مشن پر نکلا ہوا تھا۔ سمجھا کریں سر جی!‘
ددریلی پاس عبور کرنے کے بعد ہم چار رات مزید چلے تو گلگت کے خوب صورت لوگوں کے خوب صورت گاؤں ہندرب پہنچے اور یہیں پر ہماری تھکا دینے والی آوارگی اختتام کو پہنچ گئی۔ ہم نے گلگت شہر سے ایک کوسٹر بُک کروائی اور اسلام آباد کے لیے نکل گئے۔ کوسٹر کا ڈرائیور ایک کڑیل جوان تھا جس کے انگ انگ میں بجلی بھری ہوئی تھی۔ شہر کے اطراف میں جگلوٹ بازار پہنچے تو گاڑی آہستہ کر کے جوان کھڑکی سے بازار میں جھانکنے لگا۔ کنڈیکٹر کو آواز دے کر کہا، ’یار دیکھنا یہاں جھنڈے کی کوئی دکان ہے کیا؟‘
میں سوچ میں پڑ گیا کہ ٹریکنگ کے دوران ہمارے رہبروں کو تو جھنڈا اس لیے چاہیے ہوتا تھا کہ مشکل چوٹی عبور کرتے وقت انہیں کامیابی کا جشن منانا ہوتا تھا، مگر اس جوان کو جھنڈا کیوں چاہیے؟ اچانک خیال آیا کہ ارے ہاں یہ تو اگست کا مہینہ چل رہا ہے۔ فون میں دیکھا تو اگست کی 12 تاریخ تھی۔ یقینا یہ شخص یوم آزادی کی مناسبت سے جھنڈا لگانا چاہ رہا ہو گا۔
کچھ ہی دیر بعد مرکزی شاہراہ سے گزرتے ہوئے جوان کی ایک دکان کے بعد جھنڈوں پر نظر لگ گئی۔ جھٹ سے اس نے لگامیں کھینچیں، پٹ سے نیچے اترا، کھٹ سے واپس چڑھا، اچھل کے اپنی زین پر بیٹھا، ایڑ لگائی اور دکان والے کو ایک بہت ہی خاندانی قسم کی گالی دیتا ہوا زن زن دوڑ پڑا۔ میں نے پوچھا، ’کیا ہوا جھنڈا نہیں ملا کیا؟‘
گردن جھٹک کے بولا، ’مہنگا بیچ رہا ہے حرام خور!‘
ہم ابھی راستے میں تھے کہ بلوچستان سے حیات بلوچ کے قتل کی خبر آ گئی۔ یہ اپنے والدین کے ساتھ کھیتوں میں کام کر رہا تھا کہ ایف سی اہل کاروں نے اسے دہشت گرد قرار دیتے ہوئے بے دردی سے کھینچا، سڑک پر لائے اور فریادی ماں باپ کے سامنے اس کے سینے میں آٹھ گولیاں اتار دیں۔
بلوچستان میں آئے روز کسی نہ کسی کی حیات بہت خاموشی سے موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہے مگر ہمیں علم اس لیے نہیں ہو پاتا کہ اس میں ایف سی اہل کار ملوث نہیں ہوتے۔ آزادی کی شب بلوچستان کو ملنے والے اس دکھ کی تصویریں دیکھیں تو خیال آیا کہ جن ماؤں کو یہ لاشیں ملتی ہیں، جن بزرگوں کے کے بچے اچک لیے جاتے ہیں، جن کی فریاد سے اخبار نویس کا قلم اور قاضی کا قلم دان نظریں چراتا ہے، جنہیں اپنے ہی گھر میں اپنی شناخت ظاہر کرنی پڑتی ہے ان کے دل دماغ پر ’یوم آزادی‘ جیسے عنوان کس رنگ میں لکھے ہوں گے؟
ایک جگہ ہم چائے کے لیے رکے تو میں نے ڈرائیور سے پوچھا، ’تم جھنڈے کے لیے اتنے اتاولے کیوں ہو رہے تھے؟‘
ترنت بولا، ’جھنڈا لگا ہو تو چالان نہیں ہوتا۔‘
حیرت سے میں نے کہا، ’کیا مطلب چالان نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ اگر جھنڈا نہیں ہوگا تو بلا وجہ چالان ہو جائے گا کیا؟‘
قریب آ کر سرگوشی کے سے انداز میں بولا، ’گاڑی کے کاغذات ٹھیک نہیں ہیں۔ نا یار جھنڈا ونڈا گاڑی پہ لگا ہو تو روکتے شوکتے نہیں ہیں۔ چپ چاپ دائیں بائیں نکل جاتے ہیں۔‘
یہ سنتے ہی مجھے سردار اختر مینگل کی وہ تقریر یاد آئی جس میں انہوں نے حکومتی بینچوں سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔ ایک جگہ انہوں نے کہا، بلوچستان میں اگر آپ کی گاڑی پر پاکستان کا جھنڈا لگا ہو تو آپ کو کھلی اجازت ہے کہ گاڑی میں اسلحہ سپلائی کرو یا منشیات لے کر جاؤ۔ اختر مینگل صاحب نے یہ کہا تو مجھے جھلاوان کے نوابوں کے گھرانے کا ایک کردار یاد آیا جو دو سال قبل مستونگ میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں قتل ہو گئے۔ ان کے قتل پر ریاستی ترجمانوں نے نہ صرف یہ کہ دل کی گہرائیوں سے تعزیت کی بلکہ ایک نمائندہ قسم کی ٹویٹ میں انہیں قومی ہیرو بھی قرار دیا گیا۔
خدا اگر مقتول کی مغفرت کرے تو کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے، مگر دنیا کی عدالت میں وہ کسی بھی حوالے سے اچھی شہرت نہیں رکھتے تھے۔ ان کا سب سے مستند اور معلوم حوالہ یہ تھا کہ وہ ایک اچھے اور منجے ہوئے سمگلر تھے۔
یہ کوئی سنی سنائی والا معاملہ اس لیے نہیں ہے کہ مرحوم نے اپنے کیے کرائے پر ہمیشہ کھلے بندوں فخر کیا۔ ریاستی سطح پر انہیں جو عزت دی گئی اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جھنڈے سے وابستہ تھے۔ اپنے ڈرائنگ روم، گاڑی اور دفتر میں ہمیشہ پاکستان کا ایک لمبا چوڑا سا جھنڈا لگائے رکھتے تھے۔ صحراؤں میں ان کے کیے ہوئے غیر قانونی شکار بھی اس لیے ناقابلِ گرفت ہوتے تھے کہ پس منظر میں جھنڈا لگا کر وہ شکار کے ساتھ تصاویر کھنچواتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اکثر وہ ہندوستان کا جھنڈا فرش پر بچھا تے تھے اور جوتوں سمیت اس پر کھڑے ہو جاتے تھے۔ اپنی حب الوطنی کا انتہائی ثبوت دیتے ہوئے ایک بار انہوں نے انڈیا کے جھنڈے اپنے جوتوں پر لپیٹے اور چوڑے ہوکر مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے چہل قدمی فرمائی۔
کل بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک بڑی جمہوری اور سیاسی رہنما میر حاصل خان بزنجو کا انتقال ہو گیا۔ میر صاحب سے اگر آپ کوئی اختلاف کر سکتے ہیں تو وہ محض سیاسی اور فکری اختلاف ہو سکتا ہے۔ ان کی سیاسی جدوجہد، فکری وابستگی اور علمی دیانت پر سوال اٹھانے میں اچھے اچھوں کو دقت ہو سکتی ہے۔
وہ ان چند سیاست دانوں میں سے تھے جنہیں آپ کتاب کا آدمی اور دانشور کہہ سکتے ہیں۔ طالب علم سوچتا ہے کہ آج جب حاصل خان کا جنازہ اٹھا تو مملکتِ خداداد کی آنکھوں میں سوگ کے رنگ کیوں نظر نہیں آئے۔ اس سوال پر جب آپ سوچیں گے تو ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ خیال ضرور اٹھے گا کہ اشرافیہ نے سبز ہلالی پرچم کو بہت ہوشیاری کے ساتھ ملکی آئین کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ یہاں اعتبار اسی شہری کا ہو گا جو آئین پر جھنڈے بازی کو فضیلت دے گا۔
کبھی لامکان کے پھیروں میں میر صاحب کی روح اسی سوال کے جواب کی تلاش میں بھٹکی ہو تو بہت ممکن ہے کہ جھالاوان کا قومی ہیرو سبز ہلالی پرچم اوڑھ کر آئے اور کہے، میر جی! میرے پاس جھنڈا ہے تمہارے پاس کیا ہے؟ وہاں پھر یہ جواب کام نہیں آئے گا کہ میری زندگی میں اک کتاب ہے، اک چراغ ہے، اک خواب ہے اور تم ہو۔ سیدھے سادے الفاظ میں بتانا پڑے گا کہ جھنڈا کہاں ہے۔