عالمی ادارۂ صحت نے اعلان کیا ہے کہ افریقی ملک نائجیریا میں پولیو کا خاتمہ ہو گیا ہے اور اب معذور کر دینے والی یہ بیماری دنیا میں صرف دو ممالک میں رہ گئی ہے۔ پاکستان اور افغانستان۔
عالمی ادارہ صحت کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر مارگریٹ چین نے کہا کہ نائجیریا کی جانب سے عزم اور کاوشوں کی وجہ سے ہپولیو کا خاتمہ ہوا ہے اور یہ کاوشیں اور عزم جاری رہے تاکہ افریقہ میں پولیو کا خاتمہ برقرار رہے۔
’اب ہمیں پاکستان اور افغانستان کی مدد کرنی ہے تاکہ یہ دونوں ممالک بھی دنیا کے دیگر ممالک کے ہمراہ پولیو سے صاف ملک ہو جائیں۔‘
عالمی ادارہ صحت کے مطابق 1988 سے پولیو میں 99 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ پہلے دنیا کے 125 ممالک میں ہر سال 35 ہزار بچے پولیو کے موذی مرض سے معذور ہوتے تھے، تاہم آج صرف دو ممالک ایسے ہیں جو پولیو کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور وہ ہیں پاکستان اور افغانستان۔
نائجیریا میں پولیو کا کوئی کیس 2016 کے بعد سے سامنے نہیں آیا، اسی وجہ سے گذشتہ ہفتے نہ صرف نائجیریا بلکہ 54 ممالک پر مشتمل تمام براعظم افریقہ پولیو سے پاک قرار دے دیا گیا ہے۔
تاہم پاکستان اور افغانستان میں سنہ 2020 میں اب تک 102 پولیو کے نئے کیس سامنے آئے ہیں۔
امریکہ میں 1979 میں پولیو کا خاتمہ ہو گیا تھا جبکہ براعظم امریکہ کو 1994 میں پولیو سے صاف قرار دے دیا گیا تھا۔ اسی طرح یورپ کو 2002 میں جبکہ انڈیا نے 1997 میں ویکسینیشن کا بڑی مہم کا آغاز کیا اور 2014 میں پولیو جیسے مرض سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افریقہ میں پولیو کا خاتمہ
سنہ 1996 میں جب افریقہ میں پولیو کے مریضوں کی تعداد 75 ہزار پہنچی تو جنوبی افریقہ کے صدر نیلسن منڈیلا نے ’کِک پولیو آؤٹ آف افریقہ‘ مہم کا آغاز کیا۔ چار سال بعد ایک متحد مہم میں افریقہ کے 17 ممالک میں لاکھوں رضا کار سات کروڑ 60 لاکھ بچوں تک پہنچے۔
پھر 2008 سے 2010 تک ایک بار پھر بڑی مہم چلائی گئی کیونکہ مغربی اور وسط افریقہ کے 24 ممالک میں پولیو تیزی سے پھیل رہا تھا۔ اس مہم میں ساڑھے آٹھ کروڑ بچوں تک پہنچا گیا۔
اس طرح صرف نائجیریا ایک ایسا ملک رہ گیا جہاں پولیو کا خاتمہ نہیں ہو سکا تھا۔ اس کی ایک وجہ مذہبی رہنماؤں کی جانب سے مزاحمت تھی۔ انھوں نے پولیو مہم میں مغربی اثر و رسوخ کی مخالفت کی اور کہا کہ پولیو ویکسین غیر محفوظ ہے۔
تاہم افریقہ سے اس مرض کا خاتمہ اس وقت ہوا جب 2016 میں کانو شہر کے امیر محمد سنوسی دوم عوام کے سامنے آئے اور انھوں نے مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کا آغاز انھوں نے سٹیج پر پولیو کی ویکسین کو کھولا اور پوری پی گئے۔ اس سال نائجیریا میں پولیو کے آخری کیس سامنے آئے اور اس بعد سے اب تک کوئی کیس نہیں ہوا ہے۔
پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟
پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے مہم کا آغاز 2000 میں اس وقت کیا گیا تھا جب 119 کیس سامنے آئے تھے۔ پولیو کیسوں کی تعداد بتدریج کم ہوتی گئی اور 2007 میں محض 32 کیس سامنے آئے۔ تاہم 2008 سے پولیو کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور 2011 میں سب سے زیادہ کیس سامنے آئے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ شاید پاکستان آخری ملک رہ جائے گا جہاں پولیو کا خاتمہ نہ ہو سکے۔
اس کی وجہ ہے کہ 2014 میں 306 بچے اس بیماری کے شکنجے میں آئے جبکہ 2017 میں یہ تعداد کم ہو کر آٹھ رہ گئی جبکہ 2018 میں 12 کیس ہوئے۔ لیکن 2019 میں یہ تعداد بڑھ کر 144 ہو گئی۔
پاکستان میں 2018 الیکشن کے باعث پولیو مہم کو بہت نقصان ہہنچا اور اس دوران قومی رابطہ کاری مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ لیکن اس سے بھی قبل سیاسی عدم استحکام تھا۔ نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹے تو شاہد خاقان عباسی کچھ عرصے کے لیے وزیر اعظم بنے۔ اس کے بعد عبوری حکومت آئی اور پھر انتخابات اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی۔
ایک پروگرام جو ڈھائی لاکھ سے زائد کارکنوں پر چلتا ہو اور جو گھر گھر جا کر ساڑھے تین کروڑ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں اور جن کے ہمراہ ایک لاکھ سکیورٹی کے جوان ہوں ایسے پروگرام کے افسران میں اگر ردو بدل کیا جائے تو وہ پروگرام مفلوج ہو جاتا ہے۔
جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو یہی ہوا اور ہر نئی حکومت کی طرح اس نے بھی بیوروکریسی میں تبدیلیاں کیں۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی فیکٹر
دوسرا نقصان القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے ڈی این اے کے لیے چلائی جانے والی جعلی مہم کی وجہ سے ہوا۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے ایبٹ آباد میں ہیپاٹائٹس کی جعلی مہم چلائی تاکہ اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ میں بچوں کا ڈی این اے لیا جا سکے اور اس سے معلوم ہو سکے کہ یہ اسامہ بن لادن کا ہی خاندان ہے۔
اس مہم کے بعد پولیو کارکنوں پر حملے ہونے شروع ہو گئے۔ شدت پسندوں نے لوگوں کو پولیو قطرے پلانے سے منع کر دیا اور ساتھ ہی کئی قسم کے پروپیگنڈے سامنے آنے لگے جیسے کہ ان قطروں سے بچے بانجھ ہو جاتے ہیں اور مغربی قوتیں ہماری آبادی کو کنٹرول کرنے کی سازش کر رہی ہیں۔
کوئی کانو کا امیر بنے گا؟
لیکن اس سارے معاملے میں پاکستان کا کوئی سیاسی یا مذہبی رہنما نے کانو کے امیر کا کردار ادا نہیں کیا۔
پاکستان میں پولیو کا خاتمہ صرف بین الاقوامی تنظیموں کی ہی ذمہ داری نہیں ہے اور حکومت پاکستان کو اس کی ذمہ داری خود لینی ہو گی۔ اصل اونر شپ قومی سطح پر فنڈز اکٹھے کرنے، مقامی حکمت عملی اور سیاسی قیادت کے صف اول میں ہونے سے آئے گی۔
عالمی ماہرین عالمی سطح کی حکمت عملی کے حوالے سے بتا سکتے ہیں لیکن کسی بھی حکمت عملی کے کامیاب ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قومی دشواریوں، ثقافت، روایات کو مد نظر رکھ کر بنائی جائیں۔
سیاسی قائدین بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہوئے کی تصاویر اونر شپ نہیں ہوتی، بلکہ اپنی تشہیری مہم ہوتی ہے۔