لاہور کے ایک مولوی صاحب ہیں۔ نام علامہ جلالی ہے۔ دن کے اکثر اوقات فتویٰ سازی کرتے ہیں اور فارغ اوقات میں چیخ چلا کے وقت کاٹتے ہیں۔
ہر آتے جاتے کے دانت چیک کرتے رہتے ہیں کہ وہابی ہے کہ شیعہ ہے۔ قادیانی ہے کہ ملحد ہے۔ سامنے سے گزرتے ہوئے کوئی انہیں سلام کرنا بھول جائے تو جلتے انگارے جیسا ایک فتویٰ اس کی ہتھیلی پر رکھ دیتے ہیں۔ اپنی رائے سے ہٹ کر کوئی رائے سن لیں تو توہینِ مذہب کا پرچہ کروا دیتے ہیں۔
پرچہ ہونے میں ذرا سی دیر ہو جائے تو تمبو بستر لے کر تھانے کے سامنے سسرال بسا لیتے ہیں۔ عدالت سے انصاف بھی مانگتے ہیں تو ’پھر انجام کے ذمہ دار ہم نہ ہوں گے‘ جیسے عاجزانہ الفاظ میں مانگتے ہیں۔ الزام ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس ثبوت و شواہد کم پڑ جائیں تو اس کی ذمہ داری بھی وکیل، تھانے اور کچہری پر برابر برابر ڈال دیتے ہیں۔
کوئی ایک ماہ قبل انہوں نے باغِ فدک کا قصہ چھیڑدیا۔ اب باغِ فدک تو آپ کو پتہ ہے کہ قرنِ اول کا ایک معاملہ ہے اور بی بی فاطمہ سے نسبت رکھتا ہے۔ اس معاملے میں ہر مسلک و مکتب اپنی اپنی ایک رائے ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے۔ علامہ نے اس معاملے میں ایک رائے دے دی جو شیعہ مکتبِ فکر کو بالکل پسند نہیں آئی۔ وہ خود تو ناراض ہوئے سو ہوئے خوش قسمتی سے انہیں سنیوں میں سے بھی کچھ اپنے ہم آواز مل گئے۔
پہلے تو کچھ دن رج رجا کے گالم گفتار ہوئی۔ پھر جس قانون کا طوق علامہ دوسروں کے گلے میں ڈالتے تھے وہی طوق شیعہ بھائیوں نے علامہ کے گلے میں فٹ کر دیا۔ ایف آئی آر کٹی، پبلک پریشر بنا، پولیس آئی اور علامہ کو صبح سویرے آستانے سے اٹھایا اور منہ اندھیرے تھانے میں ڈال دیا۔
محرم کا مہینہ اسلامی تاریخ میں بہت مقدس مہینہ مانا جاتا ہے۔ مگر پاکستان میں محرم کا مہینہ آتا ہے تو لگتا ہے پوری قوم کے ہاتھ پاؤں باندھ کر کسی نے بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا ہے، اور ہاف کِک سٹارٹ خطیب و ذاکر منہ میں آگ لیے اس ڈھیر کا چکر کاٹ رہے ہیں۔ قوم سانس روکے بیٹھی ہے کہ بارود اب پھٹا کہ تب پھٹا۔
اس بار بھی محرم کا مہینہ آیا تو شہر نے سانسیں روک دیں۔ جو پلٹ جھپٹ ذاکرعشرہ پڑھنے اسلام آباد آئے ان میں علامہ علوی بھی تھے۔ کام کاروبار ان کا بھی وہی علامہ جلالی والا ہے۔ دسمبر کی سردی میں آتش دان کی جگہ ان کی تقریر لگا دیں تو آپ کو گرم کپڑے اتارنے پڑ جائیں گے۔ جناب نے اس بار بھی مجلس میں باغِ فدک کا قصہ چھیڑ دیا اور اس میں وہ رائے دے دی جو اب کی بار سنیوں کو پسند نہیں آئی۔ کچھ ہی گھنٹوں میں سوشل میڈیا پر وہ مدھانی چلی کہ اس رائے کی پیڑے والی لسی بن گئی۔ دل آزاری، گستاخی، توہین جیسے روایتی ذخیرہ الفاظ کی اتنی جگالی ہوئی کہ ایف آئی آر پک کے تیار ہو گئی۔
سنی نمائندے کف اڑاتے ہوئے نکلے، وہی مقدمہ جو شیعہ حضرات نے علامہ جلالی پہ کیا تھا وہی مقدمہ علامہ علوی پر ہو گیا۔ اب جتنی دیر میں پولیس وین کو دھکا دیتی سلف مارتی اتنی دیر میں علامہ نے کنڈی کھولی اور پچھلی گلی سے ہرو برو ہو گئے۔ اگلی شام پتہ چلا کہ قبلہ عشرہ آدھے میں میں چھوڑ کر سیدھا انگلستان سدھار گئے ہیں۔ نہ سدھارے ہوتے تو یہاں کی جیلوں میں اب تک اتنی چکی پیس چکے ہوتے کہ بارہ کہو اور اس کے نواح میں رہنے والوں کے لیے آٹا کافی ہو جاتا۔
ایسا ہی ایک واقعہ عین عاشورہ کے روز کراچی کے مرکزی جلوس میں بھی پیش آیا۔ عربی زبان میں خطبہ دیتے ہوئے ایک علامہ نے کچھ برگزیدہ ہستیوں کے نام لیے اور اپنے عقیدے کے مطابق ان کے ساتھ سلوک کیا۔ سنی یہاں بھی گرمی کھا گئے اور ایک عدد ایف آئی آر یہاں بھی کٹ گئی۔ اگلے ہی روز ایک سنی مولوی صاحب کی ایک وڈیو لڑھکتے ہوئے سوشل میڈیا پر آ گئی۔ اس وڈیو میں مولوی صاحب نے اپنا سارا علم یزید کو ایک برگزیدہ ہستی ثابت کرنے پر لگایا ہوا تھا۔ اب مصرع اٹھانے کی باری پھر سے شیعہ جوانوں کی تھی، مگر اس بار وہ اتنا تو کہہ پائے کہ ہماری دل آزاری ہوئی ہے، ایف آئی آر نہیں کٹوا سکے۔ کیونکہ اس بار انہیں دوسرے مسلکوں سے ہمنوائی نہ مل سکی۔
اب آپ ہمارے ایک نیم بزرگ دوست سے ملیے، انہیں سب پیار سے لڈن بھائی بلاتے ہیں۔ سفید کرتے میں آلتی پالتی مارکر چبوترے پہ بیٹھے رہتے ہیں، پان چباتے رہتے ہیں، چشمہ ناک کے بانسے پہ رکھ کر کتاب یہاں وہاں سے ورق گردانی کرتے رہتے ہیں اور سگرٹ کے کش پہ کش لگاتے جاتے ہیں۔ غالب کی طرح صوم وصلوۃ کا مطلب خوب سمجھتے ہیں مگر مسجد سے دور رہتے ہیں۔ محلے کے بزرگ اس بات پر ان سے ناراض رہتے ہیں جمعے کی نماز کے وقت بھی یہ چبوترے پر بیٹھے رہتے ہیں۔ اور تو اور رمضان میں بھی سگرٹیں پھونکتے رہتے ہیں۔
کہنے والے کچھ بھی کہیں مگر ماننے کی بات یہ ہے کہ لڈن بھائی کی باتیں سمجھداری والی ہوتی ہیں۔ کسی بھی معاملے میں دور کی کوڑی لاتے ہیں اور پتے کی بات کر جاتے ہیں۔ انہی دنوں ہمارے ایک دوست مسجد سے نماز پڑھ کے آئے اور لڈن بھائی کے ساتھ چبوترے پر بیٹھ گئے۔ لڈن بھائی انہیں توشۂ خاص سے اسے پان لگا کے دے رہے تھے کہ ہمارے ایک شیعہ دوست بھی آ دھمکے۔ اب جو بات سے بات نکلی تو بہت دور نکل گئی۔ ہوتے ہوتے توہین، گستاخی، دل آزاری اور ایف آئی آر والے تار چھڑ گئے۔
آسمان زمین کے قلابے ایک ہو گئے تو لڈن بھائی نے پچکاری ماری، سگرٹ سلگائی، لمبا سا کش لیا، کچھ دھواں صفائی سے پیپھڑوں میں کھینچتے ہوئے اور کچھ باہر چھوڑتے ہوئے بولے، ’دیکھو میاں، سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ تم لوگوں کو ایک دوسرے سے ہو گئی ہے اللہ واسطے کی نفرت۔ سوچ پوچھو تو اس وقت تم لوگوں کی ایک دوسرے کو دیکھ کر بھی دل آزاری ہو رہی ہے۔ اب اس بات پر تو ایف آئی آر کٹنے سے رہی کہ بھائی پپو مکینک کو دیکھ کر میرا خون کھولتا ہے۔ ایک دوسرے کا ٹینٹوا دبانے کے لیے کوئی اور بات تو تم لوگوں کو ملتی نہیں ہے تو ایک دوسرے کی تقریروں میں مین میخ نکالنا شروع کر دیتے ہو۔
’پھر اتنے تو تم لوگ عقل کے پیدل ہو کہ جو تقریر گلی کے دوچار لونڈوں نے سنی ہوتی ہے اسے تم لوگ مشرق مغرب میں پھیلا دیتے ہو۔ شیعہ یہاں وہاں پھدک کر سنی خطیبوں کی کمپنی کی مشہوری کر رہا ہے اور سنی بیچارا شیعہ ذاکر کی ایڈورٹائزمنٹ ایجنسی بنا ہوا ہے۔ میری مانو تو سنی ان سنی کر دیا کرو اسی میں سب کا بھلا ہے سب کی خیر ہے۔ کنپٹی پہ ریوالور رکھ کے تم عزتیں وزتیں نہیں کروا سکتے، یہ بتا دے رہا ہوں میں۔ جو جسے مانتا ہے وہ مانے گا جو جسے نہیں مانتا وہ نہیں مانے گا۔ خلاص!
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’سب چھوڑو، بم پھوڑو، گئو ماتا کی مثال لے لو تم۔ ہندو کہتا ہے ہم اسے پوجیں گے تم کہتے ہو ہم کاٹ پیٹ کے تکے بنائیں گے۔ ہندو کہتا ہے ہم گائے کو مارنے نہیں دیں گے تم کہتے ہو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ ہندو کہتا ہے گیتا میں یہ لکھا ہے اور تم کہتے ہو ہمارے ہاں وہ لکھا ہے۔ اب ایمان داری سے بتاو ذرا کہ کیا کریں اس مارا ماری کا؟
دیکھو لڑکے طریقے تو کل ملا کے دو ہی ہیں۔ یا تو ہندو کہے ہم پوجیں گے نہیں اور مسلمان کہے کہ ہم نوچیں گے نہیں۔ تمہارے بھی مزے گائے کے بھی مزے اور اللہ آپ کا بھلا کرے ہم سب کے مزے۔ یا پھر یہ ہے کہ بس دونوں اتفاق کر لیں کہ بھئی جس نے پوجا پاٹ کرنی ہے وہ پوجا پاٹ کرے اور جس نے پیٹ پوجا کرنی ہے وہ اللہ کا نام لے کر پیٹ پوجا کرے۔ ایف آئی آریں کاٹ کے بھی تو یہی کچھ ہو رہا ہے نا یار، تو بغیر ایف آئی آر کے یہ سب کیوں نہیں کرلیتے۔ یا گائے کو بخش دو یا ایک دوسرے کو بخش دو۔‘
لڈن میاں پھر سے ایک گہرا کش لگا کر آہستہ سے کہتے ہیں، ’ویسے اگر سچ پوچھو تو تم لوگوں کی یہ آپسی کی ایف آئی آریں اپنے کو تو وارے میں پڑ رہی ہیں۔ ہم جو بیچارے تین میں ہیں نہ تیرہ میں ہیں تم لوگوں کی یہ توہین والی ایف آروں سے یقین مانو عاجز آ گئے تھے۔ پیسوں کا معاملہ ہے، توہین والی ایف آئی آر۔ توتکار ہو گئی تو آیف آئی آر۔ لڑکی کے ابا نہیں مان رہے، تو ایف آئی آر۔ لاک ڈاؤن میں چرس نہ ملی تو ایف آئی آر۔ پان میں چونا تیز ہو گیا تو ایف آئی آر۔ یقین مانو میری دو سگریٹوں کے بیچ کے وقفے میں تین ایف آئی آریں تو محلے میں کٹ چکی ہوتی ہیں۔ اپنے قاسم دانےو الے کی کبھی اتنی پتنگیں نہیں کٹیں جتنی تم لوگوں نے ایف آئی آریں کاٹ دی ہیں۔
اچھا ہے بھائی، میں تو کہتا ہوں کاٹتے رہو ایک دوسرے پہ یہ پرچے ورچے، ہم بھی سکون کے دو کش لگائیں۔‘