چین پاکستان معاشی راہداری (سی پیک) کے تحت سرگرمیوں کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ادارے سی پیک اتھارٹی کے قیام سے متعلق مستقل قانون تاحال نہیں لایا جا سکا ہے۔ یہ اتھارٹی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بنائی گئی تھی۔
پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل اور قانونی ماہر عارف چوہدری کہتے ہیں کہ گذشتہ سال اکتوبر میں وجود میں آنے والی سی پیک اتھارٹی تقریبا تین ماہ سے بغیر کسی قانونی کور کے فرائض سر انجام دے رہی ہے کیوں کہ وفاقی حکومت ملک کی معاشی ترقی سے جڑے اس اہم ادارہ کے قیام اور سرگرمیوں سے متعلق پارلیمان میں قانون سازی نہیں کروا پائی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی وزارت قانون اور منصوبہ بندی کمیشن کے اہلکاروں کی اس سلسلہ میں رائے جاننے کی کوشش کی، تاہم اس تحریر کے مکمل ہونے تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
البتہ وزارت قانون کے ایک سینئیر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ 'سی پیک اتھارٹی کا قانون اس وقت موجود نہیں ہے۔ اور ادارے کو کوئی قانونی کور حاصل نہیں۔ سی پیک اتھارٹی کا قیام صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ عمل میں لایا گیا تھا۔ جو آٹھ ماہ کا قانونی عرصہ پورا کرنے کے بعد اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ وفاقی حکومت نے سی پیک اتھارٹی کے قیام اور کام کرنے سے متعلق مستقل قانون کا بل قومی اسمبلی میں پیش تو کیا ہوا ہے۔ لیکن اس پر بحث یا منظوری کے سلسلہ میں کوئی پیش رفت منظر عام پر نہیں آئی۔'
ایسی صورت حال میں سی پیک اتھارٹی کی موجودگی اور کام کرنے کو غیر قانونی قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال جو چین پاکستان معاشی راہداری کے ساتھ ابتدائی دور میں منسلک رہے نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ پارلیمان سے منظور شدہ قانون کی غیر موجودگی میں سی پیک اتھارٹی فعال ادارہ نہیں ہو سکتا۔ اور سی پیک کا کوئی بھی اقدام اور خرچہ غیر قانونی ہو گا۔
تاہم عارف چوہدری نے احسن اقبال سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ کسی فعال سرکاری ادارہ کے قیام سے متعلق بنیادی قانون کی عارضی غیر موجودگی کو زیادہ اہمیت کا حامل نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کا کہنا تھا کہ جب تک اس مسئلہ کو باقاعدہ کسی مناسب فورم پر اٹھایا نہیں جاتا تو ادارہ کی سرگرمیاں قانونی ہی سمجھی جائیں گی۔
سی پیک اتھارٹی کا قیام
تحریک انصاف حکومت نے چین پاکستان معاشی راہداری کے تحت ترقیاتی سرگرمیوں کا دائرہ کار بڑھانے اور زیادہ موثر بنانے کے واسطہ گذشتہ سال ایک نیا ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
ابتدائی طور پر سی پیک اتھارٹی کا قیام صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ عمل میں لایا گیا۔ اور صدر ڈاکٹر عارف علوی نے 5 اکتوبر کو چین پاکستان اکنامک کوریڈور اتھارٹی آرڈیننس 2019 پر دستخط کیے۔
وزارت قانون کے افسر نے کہا کہ سی پیک کی اہمیت کے باعث ایک ادارہ کی فوری ضرورت محسوس کی گئی۔ اور چونکہ اس وقت پارلیمان کے کسی ایوان نہیں ہو رہا تھا اس لیے آرڈیننس کے ذریعہ اتھارٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس کی عمر 120 روز ہوتی ہے۔ اور یوں سی پیک اتھارٹی آرڈیننس 2019 کی معیاد فروری 2020 میں ختم ہونا تھی۔
آئین کے تحت کسی صدارتی آرڈیننس کو دوبارہ 120 روز (یا چار مہینوں) کے لیے جاری کرنے کے واسطہ منظوری صرف قومی اسمبلی سے ہی لی جا سکتی ہے۔ اور اس (دوسری) معیاد کے ختم ہونے کی صورت میں صدارتی آرڈیننس خود بخود معطل ٹھرتا ہے۔
وفاقی حکومت نے سی پیک اتھارٹی آرڈیننس 2019 کی پہلی معیاد ختم ہونے سے قبل ہی اتھارٹی سے متعلق مستقل قانون بنانے کی غرض سے بل 30 جنوری کو قومی اسمبلی کے سامنے رکھا۔
حزب اختلاف نے بل کی شدید مخالفت کی اور اس پر غور یا بحث کرنے سے انکار کر دیا۔تاہم اسی اجلاس نے سی پیک اتھارٹی آرڈیننس کی مزید ایک سو بیس دنوں کے لیے منظوری دے دی۔
دوبارہ منظوری پانے والے سی پیک اتھارٹی آرڈیننس 2019 کی عمر کے 120 روز 29 مئی کو پورے ہو گئے ہیں۔ اور آرڈیننس خود بخود ختم ہو گیا ہے۔
یوں گذشتہ 97 روز سے سی پیک اتھارٹی کے وجود اور کام سے متعلق ملک میں کوئی فعال قانون موجود نہیں ہے۔ اور اس طرح یہ اہم معاشی ادارہ بغیر کسی قانونی کور کے کام کر رہا ہے۔
اس سلسلے میں جمعے کے روز وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم سے ان کی رائے جاننے کے لیے وزارت قانون کی ترجمان کے ذریعہ رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب تاحال موصول نہیں ہو پایا۔
وفاقی وزارت قانون کے سینئیر افسر نے رابطہ کرنے پر بتایا: اس وقت کی صورت حال یہ ہے کہ صدارتی آرڈیننس ختم ہو چکا ہے۔ اور سی پیک اتھارٹی سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون کی منظوری کے لیے بل قومی اسمبلی میں 30 جنوری کو ہی پیش کر دیا گیا تھا۔ تاہم آرڈیننس کی دوسری منظوری کے بعد کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اس صورت حال پر رائے لینے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف قانونی ماہرین سے گفتگو کی۔ جن میں سے اکثر نے قانون کی غیر موجودگی میں سی پیک اتھارٹی کے وجود اور سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دیا۔
تاہم عارف چوہدری کچھ مختلف رائے کے ساتھ سامنے آئے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ کسی بھی آرڈیننس کی دو عمریں گذر جانے کے بعد اس کے تحت قائم کوئی ادارہ غیر فعال ہو جاتا ہے۔ اور قانون کی نظر میں سی پیک اتھارٹی کا وجود تو ختم ہو چکا ہے۔ لیکن جب تک اس مسئلہ کو باقاعدہ کسی مناسب فورم پر اٹھایا نہیں جاتا ادارہ کی سرگرمیاں قانونی تصور ہوں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں کئی مرتبہ ایسا ہو چکا ہے۔ صدارتی آرڈیننسز کی معیاد ختم ہونے کے باوجود ان کے تحت کام ہوتا رہا ہے۔ اور باقاعدہ قوانین بعد میں وجود میں آئے۔
اس سلسلہ میں انہوں نے مسلم فیملی لا، حدود قوانین اور نیب آرڈیننسز کی مثالیں دیں۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک اتھارٹی آرڈیننس 2019 کے متبادل قانون کے آنے تک اسی کو ڈی فیکٹو قانون سمجھا جائے گا۔ اور سی پیک اتھارٹی کی تمام سرگرمیاں اسی آرڈیننس کے تحت درست سمجھی جائیں گی۔
سی پیک اتھارٹی
اکتوبر 2019 میں سی پیک اتھارٹی آرڈیننس کے لاگو ہونے کے اگلے ہی مہینے سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو سی پیک اتھارٹی کے پہلے چئیرمین کی حیثیت سے مقرر کیا۔ انہوں نے 26 نومبر کو اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔
چئیرمین کے علاوہ سی پیک اتھارٹی ایک چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او)، دو ایگزیکٹیو ڈائرکٹرز (آپریشنز اور ریسرچ) اور چھ اراکین پر مشتمل ہے۔ اور منصوبہ بندی، ترقی اور اصلاحات ڈویژن کے تحت فرائض سر انجام دیتی ہے۔
سی پیک اتھارٹی آرڈیننس کے مطابق ادارہ بنیادی طور پر پاک چین معاشی راہداری سے متعلقہ ترقیاتی سرگرمیوں کو یقینی بنانے کے لیے ہم آہنگی، نگرانی اور تشخیص کا ذمہ دار ہو گا۔
سی پیک اتھارٹی آرڈیننس کے نفاذ کے وقت اس وقت کے وفاقی وزیر برائے ترقی، منصوبہ بندی اور اصلاحات مخدوم خسرو بختیار نے اتھارٹی کے قیام کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ادارہ سی پیک کے تحت منصوبوں کی رفتار میں تیزی لانے کے علاوہ معاشی نمو کے لیے نئے مواقع تلاش کرنے میں بھی مدد فراہم کرے گا۔