27 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جانب سے ایران پر نافذ کردہ اسلحے کی پابندی پانچ سال بعد ختم ہوگئی۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے گزشتہ برس یہ دعوی کیا تھا کہہ اگر وہ ایک سال مزید اقتدار میں رہے تو ایران اسلحے کی عالمی منڈی میں داخل ہو جائے گا۔
اس کے برعکس اب وہاں افراط زر عروج پر ہے اور معاشی صورتحال گمبھیر ہو چکی ہے۔ حکومتی بدانتظامی کے نتیجے میں کوویڈ -19 برے طریقے سے پھیل رہا ہے اور ہر روز کئی ایرانیوں کی قیمتی جانیں قربان اس وبا کی نذر ہو رہی ہیں۔
انہوں نے اسلحے کی پابندی کے خاتمے کو 'برجام' معاہدے کے بعد کی ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے (برجام - برنامہ جامع اقدام مشترک - مغربی ممالک سے 2015، ویانا میں کیا گیا ایرانی ایٹمی معاہدہ)۔ برجام جسے ایرانی معیشت کا عظیم خواب کہا گیا تھا۔
ایران میں فوج کے اعلی سطحی حکام پہلے ہی اسلحہ برآمد کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں تاکہ اگر پابندی اٹھنے کے بعد بھی غیر ملکی سرمایہ کاری ایران میں ممکن نہ ہو تو کم از کم ایرانی ساختہ ہتھیاروں کا دوسرے ممالک سے تبادلہ کرنے کی گنجائش موجود رہے۔
ایران میں اسلحہ سازی کی گنجائش ، ممکنہ خریدار ممالک اور اگر بہت پرامید ہو کے سوچیں تو زرمبادلہ کی ممکنہ آمد کے بارے میں شکوک سے قطع نظر، موجودہ تناظر میں ایران کے لیے کاغذی طور پر پابندیاں اٹھنے اور فی الحقیقت ایسا کچھ بھی واقع ہو جانے میں بہت فرق ہے۔
ایرانی اسلحے کے ممکنہ خریدار ممالک کو مالی پابندیوں کے علاوہ امریکی مارکیٹ سے خارج ہونے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، ان پر مختلف پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں، بین الاقوامی طور پہ بھاری جرمانوں کا خدشہ موجود ہے۔ تو یہ سب عوامل ایران کے ساتھ کسی بھی ملک کی جانب سے اسلحے کے مبینہ معاملات کو روک سکتے ہیں۔
اس دعوے کا جیتا جاگتا ثبوت چین جیسا ملک ہے جو ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار تھا اور جو 'برجام' سے امریکی انخلا کے ڈھائی سال بعد ایرانی تیل خریدنے سے کھل کے انکار کر چکا ہے۔ انہیں پابندیوں کے خوف سے ایران کو روس کی جانب سے ایس 300 دفاعی نظام کی رسد دس برس سے تاخیر کا شکار ہے جو خود اپنے آپ میں ایک بڑا ثبوت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ امریکہ سلامتی کونسل میں اسلحے کی پابندی میں توسیع کی قرارداد منظور کروانے میں ناکام رہا لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی لگائی گئی ثانوی پابندیاں اور ایگزیکٹو آرڈر بھی ایران سے اسلحے کی کسی قسم کی ڈیل کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔
ایران اور وینزویلا کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی ایلیٹ ابراہم اسلامی انقلاب کے ابتدائی برسوں سے ہی ایرانی مذاکرات کاروں کی حکمت عملی پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ 'موجودہ دباؤ کو برقرار رکھنے سے تہران بالآخر مذاکرات کی میز پر آجائے گا۔'
ایرانی شہری دفاع کی تنظیم کے سربراہ جنرل غلام رضا جلالی کی طرف سے جاری کیے گئے حالیہ بیان پر ذیل میں ایلیٹ ابراہم کے ساتھ انڈپینڈنٹ فارسی کے اس انٹرویو کا متن موجود ہے جو ٹیلیفون کے ذریعہ کیا گیا اور جس میں انہوں نے 'ایران کو عسکری پیش قدمی کا خطرہ نہ ہونے' کے جواب میں صرف یہی کہا کہ 'اس کا جواب سلیمانی سے پوچھیں۔'
امریکی مخالفت کے باوجود ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی جانب سے اسلحہ کی پابندیاں ختم ہوگئی ہیں۔ ایرانی عہدیدار اب مشرق وسطی میں اسلحہ سازی کے پہلے پانچ رسد کاروں میں سے ایک بننے کی بات کر رہے ہیں۔ کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف متحدہ بین الاقوامی محاذ بنانے میں ناکام رہا ہے؟
ہمیں یقین ہے کہ ہم کئی متبادل بندوبست کر چکے ہیں۔ ہمارے پاس صدر ٹرمپ کی جانب سے جاری کیا گیا نیا ایگزیکٹو آرڈر ہے جس کی رو سے ایران کے ساتھ اسلحے کی تجارت میں شامل ہونے والے کسی بھی فرد یا مملکت پر واضح اور جامع پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں موجود بعض ممالک کے طرز عمل سے مایوس ہیں ، لیکن ان میں سے کچھ اب بھی ایران میں ہتھیاروں کی منتقلی پر اپنی پابندیاں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مہنگے اسلحے کی خریداری کے لیے ایرانی حکومت کے مالی وسائل خود بھی محدود ہیں اور مذکورہ امریکی پابندیاں اس بندش کو مزید طاقتور کر دیتی ہیں۔
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایران نے اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے اقوام متحدہ کی پابندیوں کے باوجود عراق میں یمن کے حوثیوں یا شیعہ ملیشیا کو اسلحہ دیا ہے۔ ان کی جانب سے رویےمیں تبدیلی کے دعوے قابل اعتبار نہیں ہیں ، انہوں نے اقوام متحدہ کی پابندیوں کی ہر طرح سے خلاف ورزی کی ہے۔
آپ نے حوثیوں کو اسلحے سے لیس کرنے کی بات کی۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے دورے میں امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے وعدہ کیا تھا کہ امریکہ ایران پر نافذ اسلحے کی پابندیاں نہیں اٹھنے دے گا۔ ان پابندیوں کے خاتمے کے بعد امریکہ اب مشرق وسطی میں اپنے اتحادیوں کی حفاظت کیسے کر سکے گا؟
ہم ایران سے اسلحہ منتقل ہونے والی کسی بھی کوشش کے جواب میں اقوام متحدہ اور امریکہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں نافذ کرکے اپنے اتحادیوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور جب ضروری ہو تو ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملٹری ایکشن بھی کر سکتے ہیں۔ یہاں میں حوثیوں کو اسلحے کی منتقلی میں رکاوٹ کی مثال پیش کروں گا جیسے ابھی کچھ عرصہ پہلے حوثیوں کو اسلحہ پہنچانے کی کوشش میں ملوث جہازوں پر قبضہ کر لیا گیا ، اور یہ سب کچھ ایسے ہی جاری رکھا جائے گا۔
کیا روس، چین ، یا چھوٹے اسلحہ فروش ممالک کو ایران کے ساتھ ہتھیاروں کے تبادلے سے روکنے کے لیے امریکہ کے پاس ثانوی پابندیوں کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ ہے؟
امریکہ سمیت دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک کا خیال ہے کہ ایران خطے میں عدم استحکام کا ایک ذریعہ ہے اور ایران سے اسلحہ خرید کر یا اسے بیچ کر کسی ملک کو بھی اس عدم استحکام میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اس پر یقین ہے اور یہ پیغام روسیوں تک بھی پہنچ چکا ہے۔ یورپ کی طرح بہت سے دوسرے ممالک بھی روس اور چین کو یہ پیغام بھیجتے رہے ہیں اور یہ عمل تاحال جاری ہے۔ یورپی پابندیاں ہنوذ برقرار ہیں اور ایران کے مالی وسائل اسی لیے اب تک محدود ہیں۔ ہماری طرف سے یہ روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جو بھی ایران سے اسلحے کی منتقلی ، ان کی مالی اعانت یا کوئی دوسرا معاہدہ کرتا ہے اسے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایران میں (غیر فعال) شہری دفاعی تنظیم کے کمانڈر نے بیان دیا ہے کہ چونکہ ایران ایک علاقائی طاقت بن گیا ہے لہذا اب اسے کسی عسکری پیش قدمی کا خطرہ نہیں ہے، کیا یہ سچ ہے کہ فوجی آپشن ٹیبل سے ہٹا دی گئیں ہیں؟
اس کا جواب میرے خیال میں جنرل قاسم سلیمانی سے پوچھیں۔
حال ہی میں تہران کے آس پاس ایک خفیہ جوہری پلانٹ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ لیکن اس طرح کی اطلاعات پر سابقہ رد عمل کے مقابلے میں امریکہ زیادہ پریشان دکھائی نہیں دیتا، کیا امریکہ کو یقین ہے کہ ایران ابھی تک جوہری کلب میں شامل ہونے سے بہت دور ہے؟
ہر ملک کے پاس ایران کی ایٹمی صلاحیت کے بارے میں اپنے انٹیلیجنس اندازے ہیں۔ ہمارے پاس جو تخمینے ہیں ان کی رسائی عوام تک نہیں ہے۔ آپ نے جن اطلاعات کا ذکر کیا ہے ان کے لیےمیں امریکی انٹیلیجنس سروس سے کہہ چکا ہوں اور وہ جلد ہمیں جامع رپورٹ دیں گے۔ مجھے امید ہے کہ عنقریب میں آپ کو وہ سب کچھ پیش کر سکوں گا۔
کیا موجودہ علاقائی حالات یا عرب اسرائیل معاہدے مشرق وسطی کو کامیابی کی طرف لے جا سکتے ہیں؟ کیا یہ معاہدے ایران کے علاقائی اثر و رسوخ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں؟
میرے خیال میں خطے میں ایران کے اشتعال انگیز سلوک کی وجہ سے ہم ایک نئی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ قدم ایران کے جارحانہ سلوک اور دہشت گردی کی حمایت کی وجہ سے اٹھایا گیا۔ عرب ممالک اور اسرائیل ان مشترکہ ترجیحات کو مقدم رکھتے ہیں۔
یہ معاہدہ مشرق وسطی میں قوت اور استحکام کا ایک ذریعہ ہے اور یقینا ایران کے ہمسایہ ممالک کا رد عمل بھی ہے۔ میں آپ کو ایک اور مثال پیش کرتا ہوں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) ایک متنازع کونسل ہے۔ لیکن اس کے تمام اراکین متحد رہے اور اقوام متحدہ کو ایک مشترکہ خط میں ایران کے خلاف اسلحے کی پابندیاں برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا گیا۔ درحقیقت اس طرح ایران کے طرز عمل سے خطے کے ان تمام ممالک میں اتحاد پیدا ہوا جو امن اور اپنا تحفظ چاہتے ہیں۔
کیا سعودی عرب آخر کار اسرائیل کے ساتھ اس امن عمل میں شامل ہوگا؟
سعودی خطے کے امن و استحکام میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ ایران خطے میں، یا یمن اور عراق جیسے ممالک میں کیا کر رہا ہے۔ سعودی بھی اسرائیل سمیت خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ عموما انہوں نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے (اسرائیل کے سلسلے میں) اقدامات کی حمایت کی ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ سعودی عرب ایک دن اسی سمت آگے بڑھے گا۔
ایران سے مذاکرات کا آپ کو برسوں طویل تجربہ رہا ہے۔ نیشنل ریویو کے ایک مضمون میں آپ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ 'اگر آپ ایران کو گلے لگانے کے لیے بازو کھولیں گے تو بھی وہ اپنے انداز میں ردعمل ظاہر کرے گا' ایران سے نمٹنے کے لیے آپ کا ترجیحی طریقہ کیا ہے؟
یہی مہذب طریقہ ہے اور یونہی یہ سب ختم ہونا چاہیے۔ اس حکومت کے خلاف پابندیوں کا مضبوط نیٹ ورک جو انہیں ایک جامع معاہدے کی سمت بڑھنے پر مجبور کرے۔ خطے میں ایران کے جوہری ، میزائل اور عسکری پیش قدمی کے پروگراموں کا احاطہ کرنے کا معاہدہ۔ اگر ہم اس وقت ایران پر دباؤ ڈال رہے ہیں تو یقینا انہیں مذاکرات سمیت اپنے طرز عمل کو تبدیل کرنا پڑے گا۔
اگر ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن جیت جاتے ہیں تو ان کے پاس ایران کے لیے کیا پیش کش ہوگی؟ ہم نے موجودہ امریکی صدر سے متعدد بار سنا ہے کہ وہ تہران کے حکام کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن نہ صرف وہ تفصیل میں نہیں گئے بلکہ انہوں نے جس معاہدے کی تجویز پیش کی تھی اس کے فریم ورک کو بھی کبھی واضح نہیں کیا۔ پابندیاں ختم کرنے کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کی اگلی ممکنہ انتظامیہ میں ایران کے لیے اور کیا تجاویز ہوں گی؟
امریکہ ایران کے ساتھ معمول کے تعلقات رکھنا چاہتا ہے، لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ایران ایک عام ملک کی طرح رویہ نہ رکھے۔ ہم جو تجویز کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ بعد از معاہدہ، پابندیوں کو فوری طور پر اٹھایا جائے اور ایران کے ساتھ عام سفارتی اور معاشی تعلقات قائم کیے جائیں۔ صدر ٹرمپ سب کے سامنے تفصیلات کے بارے میں بات نہیں کرتے ہیں۔ آئندہ سال اگر ہم مذاکرات کریں گے تو جو بات چیت ہو گی وہ بند دروازوں کے پیچھے ہی ہوگی، اس سے کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
نومبرکا پہلا منگل، امریکی انتخابات کا دن - تہران میں امریکی سفارت خانے پر حملے کی اکتالیسواں سالگرہ کا دن بھی ہے۔ امریکی سفارت خانے کے ممبروں کو یرغمال بنائے جانے کے چودہ سال بعد ، تہران کے پاسواشنگٹن کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے اب بھی تین امریکی شہری باقی ہیں۔ کیوں کوئی امریکی حکومت اس عمل کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوئی؟
امریکہ کے پاس ایران میں اپنے شہریوں کی نظربندی کو روکنے کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ یا تو خود ایرانی اسے روکیں اور یا غیر ملکیوں کے ذریعے اسے روکا جائے۔ یہ عمل اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک ایران میں جمہوری حکومت نہ ہو۔ ایسی حکومت جو عوام کے ذریعے منتخب ہو اور قانون کی حکمرانی کے تحت چلتی ہو۔