مرحوم لیگ بریک بولر عبدالقادر جتنے زگ زیگ انداز اور مشکل ایکشن کے بولر تھے اتنے ہی وہ سیدھے سادھے انسان تھے۔ جو دل میں ہوتا برملا کہہ دیتے تھے ۔ ان کی زبان کی سادگی ہمیشہ قائم رہتی بس میدان میں آتے ہی ان کی بولنگ سے سادگی غائب ہوجاتی تھی۔
جس مہارت سے وہ ایک مشکل زاویے سے وکٹ پر پہنچ کر گیند کو فلائٹ دیتے تھے اس سے بلے باز کو یہ اندازہ نہیں ہو پاتا تھا کہ گیند پھینکتے وقت ان کی انگلیوں میں گیند پر کتنا فاصلہ تھا کیونکہ لیگ بریک کا سب سے خطرناک ہتھیار گگلی ہے جو ایک ہی ایکشن میں محض انگلیوں کی حرکت سے گیند کی سمت تبدیل کر دیتی ہے۔
وہ گیند جو روایتی طور پر کلائی کے عقبی حصے سے نکل کر جب بلے باز تک پہنچتی ہے تو لیگ سٹمپ سے آف سٹمپ کی جانب مڑ جاتی ہے لیکن گگلی میں وہی گیند آف سٹمپ سے لیگ سٹمپ کی طرف مڑ جاتی ہے۔
عبدالقادر کی گگلی اس قدر تیز اور موثر ہوتی تھی کہ ان کے بعد آنے والے سب ہی بولروں نے ان کی تیکنیک کی نقل کی ہے۔ ماضی کے عظیم بلے باز جیف بائیکاٹ نے کہا تھا کہ قادر کی گگلی سمجھنے کے لیے بہت توجہ چاہیے ہوتی تھی۔
مرحوم عبدالقادر نے خود اپنی گگلی بولنگ کو اپنا سب سے خفیہ ہتھیار قرار دیا تھا حالانکہ ایک لیگ سپنر کے پاس فلپر، ٹاپ سپن، شوٹر اور کئی دوسری اقسام ہوتی ہیں لیکن گگلی کو ان سب میں برتری حاصل ہے۔
گگلی بولنگ کے موجد تو کرکٹ کے اولیں دور میں انگلینڈ کے برنارڈ بوسن قوئٹ کو کہا جاتا ہے جن کے نام پر آج بھی آسٹریلیا میں گگلی بولنگ کو بوسی اور رانگ ون کہا جاتا ہے۔ رانگ ون سے مراد گیند کا غلط سمت میں مڑجانا ہے۔
مغرب سے شروع ہونے والی اس بولنگ کو صحیح عروج مشرق کے بولرز نے عطا کیا کیونکہ ایشیائی بولرز کے لیے گرم موسم میں اپنے ہاتھ کے مسلز کو لچک دار بنانا آسان ہوتا ہے اور انگلیوں کو تیزی سے حرکت دے سکتے ہیں۔
ماضی میں پاکستان میں انتخاب عالم ایک بڑے لیگ بریک گگلی بولر نظر آتے ہیں ان کے ساتھ مشتاق محمد، وسیم راجہ بھی گگلی بولرز تھے۔
لیکن اس قسم کی بولنگ کو دوبارہ زندہ کرنے والے قادر تھے جن کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے کئی نوجوان لیگ سپنرز تیزی سے سامنے آئے۔
مشتاق احمد، اقبال سکندر، دانش کینیریا اور پھر دور حاضر میں یاسر شاہ اور شاداب خان ان میں شامل ہیں۔
عبدالقادر نے اس فن کو اپنے بیٹے عثمان قادر میں منتقل کیا جنہوں نے ہونہار اولاد کی طرح اس فن کو سیکھا اور اپنے والد کو مایوس نہیں کیا۔
عثمان قادر کمسنی سے ہی لیگ بریک بولنگ میں ماہر ہوگئے اور پھر جب عبدالقادر جیسا استاد ہو تو کیا کہنے!
لیکن عبدالقادر کی تربیت کے باوجود عثمان کو قومی ٹیم تک کا راستہ نہ مل سکا تھا۔ اگرچہ وہ ڈومیسٹک کرکٹ کھیل رہے تھے لیکن اس وقت کے سیلیکٹرز عثمان کو منتخب کرنے پر راضی نہ تھے جس پر مرحوم عبدالقادر اکثر میڈیا پر اس بات پر احتجاج کرتے تھے کہ میرے بیٹے کو باصلاحیت ہونے کے باوجود مجھ سے حسد میں سزا دی جا رہی ہے۔
جب وہ قومی ٹیم سے مایوس ہوگئے تو عثمان کو آسٹریلیا کھیلنے بھیج دیا جہاں ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور وہ پرتھ سکارچرز کا حصہ بن کر بگ بیش لیگ میں کھیلنے لگے، اس کے ساتھ ویسٹرن آسٹریلیا کے ساتھ بھی منسلک ہوگئے۔
آسٹریلیا میں سخت اور خشک وکٹوں پر وہ بہت کامیاب رہے لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ پھر بھی ان سے آنکھیں پھیرے رہا۔ پچھلے سال عبدالقادر کی موت نے پاکستان کرکٹ کو سوگوار کر دیا۔
جب ان کے دوست اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو پتہ چلا کہ قادر کا ایک بیٹا بہت اچھا لیگ بریک بولر ہے لیکن بورڈ نظر انداز کر رہا ہے تو عمران خان حیران ہوئے اور ان کے استفسار پر بورڈ کے ذمہ داران کو ہوش آیا اور عثمان کو کیمپ میں طلب کر لیا گیا۔
قسمت نے ان کی یاوری کی اور ان کو آسٹریلیا جانے والی ٹیم میں جگہ بھی مل گئی لیکن ڈیبیو پھر بھی نہ ہو سکا حالانکہ آسٹریلیا کا تجربہ دیکھتے ہوئے ان سے فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا۔
ٹیم کے ساتھ رہنے کے باوجود پورا ایک سال وہ انتظار ہی کرتے رہے تاہم ایک سال کے بعد زمبابوے کے خلاف عثمان قادر کو پہلا میچ کھیلنے کا موقع بالآخر مل ہی گیا۔
شاید اسی وقت کا وہ شدت سے انتظار کر رہے تھے۔ پہلے میچ میں بولنگ تو ٹھیک ہی کی لیکن وکٹ ایک ہی مل سکی اور رنز بھی زیادہ دے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن اتوار کو کھیلے جانے والے دوسرے میچ میں عثمان قادر نے مایوس نہیں کیا اور اپنے والد کی یاد تازہ کر دی۔
جس مہارت اور عمدگی سے انہوں نے بولنگ کی وہ قابل دید تھی۔ لیگ بریک بولر کے پاس بہت سی دھوکہ دینے والی گیندیں ہوتی ہیں مگر گگلی بولنگ سب سے موثر ہوتی ہے۔
عثمان نے جس گیند پر سکندر رضا کو آؤٹ کیا اس کی کلاس برسوں یاد رہے گی۔ بالکل صحیح جگہ گیند کا گرنا اور پھر مناسب آف بریک ( گگلی) ہونا اس کی خاص بات تھی۔ گیند نے صرف سکندر رضا کو ہی نہیں دھوکہ دیا بلکہ وکٹ کیپر رضوان بھی نہیں سمجھ سکے تھے اسی لیے شاید عثمان نے اتنا ہی بریک کیا کہ گیند سکندر کی وکٹ اڑا دے۔
کسی ٹی ٹوینٹی میچ میں 24 رنز دے کر تین وکٹ ایک بہت اچھی کارکردگی ہے اسی لیے میچ کے بعد عثمان قادر کے الفاظ تھے کہ سکندر رضا کو گگلی پر بولڈ کرکے بہت مزہ آیا۔
میچ میں پاکستان کی فتح میں اگرچہ حیدر علی کی جارحانہ بیٹنگ کا بھی کردار تھا لیکن یہ عثمان قادر ہی تھے جن کی عمدہ بولنگ نے زمبابوے کو کم سکور تک محدود رکھا جس سے آسان ہدف کی بنا پر پاکستانی بلے بازوں نے بلا خوف بیٹنگ کی اور پندرھویں اوور میں ہی میچ ختم کر دیا۔
گھر کی گلی سے بولنگ شروع کرنے والے مرحوم قادر نے ہمیشہ اعتراف کیا تھا کہ میں ایچیسن کالج گروپ سے نہیں بلکہ گلی محلے کی کرکٹ سے آیا ہوں اور وسائل کی کمی نے مجھ میں زیادہ سے زیادہ محنت کا حوصلہ پیدا کیا جس سے میں اتنا بڑا بولر بنا میری بولنگ کا پہلا ٹریک میرے محلے کی گلی تھی۔
عثمان قادر مزید آگے کتنا کھیلیں گے یہ تو سیلیکٹرز جانتے ہیں لیکن عثمان قادر کی بولنگ کی کاٹ اور تیزی اسی طرح ہے جیسے اپنے وقت کے جادوگرعبدالقادر کرتے تھے۔
گلی سے گگلی تک کا سفر کل بھی جاری تھا اور آج بھی جاری ہے۔
بس گیند آج باپ نہیں بیٹے کے ہاتھ میں ہے۔