جو بائیڈن معاشی مشکلات کا مقابلہ کیسے کریں گے؟

دوسری سہ ماہی میں تیزی سے گرنے کے بعد امریکی معیشت نے 2020 کی تیسری سہ ماہی میں اپنے قدم مضبوط کیے تھے لیکن اقتصادی سرگرمی کی سطح اب بھی پچھلے سال کے آخر کے عروج سے 3.5 فیصد پیچھے ہے۔

جو بائیڈن 20 جنوری 2021 سے پہلے باضابطہ طور پر صدارت کا عہدہ نہیں سنبھال سکتے (اے ایف پی)

جو بائیڈن نے گذشتہ ہفتے صدارتی انتخابات میں فتح کے بعد ڈیلاویئر میں اپنی پہلی تقریر میں اعلان کیا کہ ان کا مقصد امریکی معیشت کو ’بحال‘ کرنا ہے۔ لیکن امریکی معیشت کو کتنا نقصان ہو چکا ہے؟ امریکہ کے اگلے صدر کی معاشی ترجیحات کیا ہونی چاہییں؟ اور یہ معلوم ہوتے ہوئے کہ بائیڈن ایک منقسم کانگریس کے وارث ہوں گے جو ان کے کام کرنے کی آزادی کو محدود کر سکتی ہے، ایسے میں انہیں کیا کرنا چاہیے؟

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکی معیشت کی بحالی کا ابھی دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔

دوسری سہ ماہی میں تیزی سے گرنے کے بعد امریکی معیشت نے 2020 کی تیسری سہ ماہی میں اپنے قدم مضبوط کیے تھے لیکن اقتصادی سرگرمی کی سطح اب بھی پچھلے سال کے آخر کے عروج سے 3.5 فیصد پیچھے ہے اور حالیہ اعداد و شمار میں اس کی رفتار مزید کم ہونے کے آثار نمایاں ہیں۔

پیر کو کرونا ویکسین میں پیش رفت کی خبر سے مارکیٹ میں سٹاکس کی قیمتیں بڑھ گئیں اس مید کے ساتھ کہ اس سے سفر کی بحالی سمیت معاشی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوسکیں گی لیکن یہ وبا امریکہ میں ایک بار پھر بڑھ رہی ہے جیسا کہ پچھلے ہفتے روزانہ نئے کیسز ایک لاکھ کی سطح تک پہنچ چکے ہیں۔

پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کے صدر ایڈم پوزن کہتے ہیں: ’(بائیڈن کے لیے) پہلا قدم یقیناً وہی ہے جس کا انہوں نے پہلے ہی اعلان کیا تھا یعنی اس وبا سے نمٹنے کا پروگرام۔ معیشت کی بحالی کے لیے یہی سب سے بڑا کام ہے جو وہ کر سکتے ہیں۔‘

فیڈرل ریزرو کے بورڈ آف گورنرز کے سابق ممبر اور اب شکاگو بوتھ سکول آف بزنس سے وابستہ رینڈل کروزنر نے زور دیا ہے کہ امریکہ کا ٹیسٹنگ اور ٹریکنگ انفراسٹرکچر خاطر خواہ نگرانی اور وبا کو قابو کرنے کے لیے اہم ہے۔

انہوں نے کہا: ’ڈیٹا اکٹھا کرنے اور آگاہی پر مناسب اخراجات اور صحت پر مناسب اخراجات یہ وہ چیزیں ہیں جو معیشت کو راہ پر لانے کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہوں گی۔‘

بہت سے ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اگلا قدم بے روزگاروں کے لیے مدد ہے۔ امریکہ میں بے روزگاری کی شرح اپریل میں 15 فیصد کی بلند ترین سطح سے نیچے آچکی ہے لیکن یہ اب بھی تقریباً سات فیصد کی سطح پر موجود ہے اور ایک کروڑ دس لاکھ افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بے روزگاری کی حقیقی سطح بتائی گئی تعداد سے کئی زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ مزید یہ کہ ملازمین کی معاشی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے۔

کانگریس نے مارچ میں بے روزگار ملازمین کی مالی مدد اور گرتے ہوئے کاروبار کو سہارا دینے کے لیے امریکی جی ڈی پی کے 10 فیصد مالیت کی دا کیئرز (کورونا وائرس ایڈ، ریلیف اینڈ اکنامک سکیورٹی) ایکٹ کی منظوری دی تھی لیکن اس پیکج کے تحت دی جانے والی امداد موسم گرما تک ہی جاری رہ پائی اور صدر ٹرمپ اور ڈیموکریٹ کے اکثریتی ایوان نمائندگان کے مابین اس کی توسیع کے لیے بات چیت انتخابات سے ہفتوں پہلے ہی ختم ہو گئی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ بیشتر معاشی ماہرین کے خیال میں جو بائیڈن کی ترجیح اس پیکج میں توسیع ہونا چاہیے جس میں امریکی ریاستی حکومتوں کے لیے مالی اعانت بھی شامل ہے۔

جو بائیڈن 20 جنوری 2021 سے پہلے باضابطہ طور پر صدارت کا عہدہ نہیں سنبھال سکتے لیکن اس کے باوجود وہ وائٹ ہاؤس کا چارج لینے سے پہلے بھی کانگریس پر ممکنہ طور پر آنے والے ہفتوں میں اس حوالے سے کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

انتخابات سے قبل ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹس دو ٹریلین ڈالر کے امدادی پیکج کی تجویز دیتے رہے ہیں لیکن ری پبلکن کی زیرقیادت سینیٹ اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تجویز کو اس لیے مسترد کر دیا تھا کیوں کہ ان کے مطابق اس سے ڈیموکریٹ کی حمایت کرنے والے شہروں اور ریاستوں کو زیادہ فائدہ ہو سکتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماہرین کے مطابق آئندہ آنے والے کسی بھی پیکج کی مالیت ایک ٹریلین ڈالر کے قریب ہو گی اور اس میں سخت دباؤ کا سامنا کرنے والی امریکی ریاستی حکومتوں کے لیے مالی مدد شامل نہیں ہوگی۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ امداد ناکافی ہو گی لیکن کچھ نہ ہونے سے پھر بھی بہتر ہے۔

ایڈم پوزن کہتے ہیں: ’اگر (بے روزگاروں کے لیے) اس کے علاوہ بھی کچھ نہ کیا گیا تو ان کو بہت زیادہ غیرضروری تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’اگر ہمیں کوئی ایسی چیز مل جاتی ہے جس میں بے روزگاری  میں توسیع پر زور دیا جائے اور یہ 750 ارب ڈالر تک ہوتا ہے تو ہم مزید مالی مدد کے بغیر صورت حال پر قابو پا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے وقت انتہائی اہم ہے۔‘ 

فوری مدد کے علاوہ ایڈم پوزن سمجھتے ہیں کہ آنے والی بائیڈن انتظامیہ کی اولین ترجیح ڈونلڈ ٹرمپ کے بہت سے نقصان دہ ایگزیکٹو آرڈرز، خاص طور پر ماحولیات اور ہیلتھ کیئر کے حوالے سے آرڈرز، کا خاتمہ ہونا چاہیے اور ان کے مطابق بائیڈن حلف لینے کے 48 گھنٹوں کے اندر یک جنبش قلم سے ایسا کر سکتے ہیں۔

بائیڈن کے منشور میں وفاقی گرین انرجی کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری اور امیروں پر ٹیکسوں میں اضافے جیسے اہم قدم بڑھانے کے منصوبے شامل تھے لیکن اس میں سے بیشتر ناقابل عمل ہوں گے، اگر توقع کے مطابق ری پبلکن سینیٹ میں اکثریت برقرار رکھتے ہیں اور نئی قانون سازی کو رد کر دیں۔

ایڈم پوسن کہتے ہیں: ’بائیڈن کو بہت سارا کام ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے کرنا ہوگا یا نیم آزاد ایجنسیوں میں تقرریوں کے ذریعے۔‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئی معاشی قانون سازی کے لیے کارپوریٹ ٹیکس اصلاحات جیسے کچھ شعبوں میں ڈیموکریٹس اور ری پبلکن کے مابین کچھ حد تک رضامندی ایک بہترین امید ثابت ہو سکتی ہے۔

کروزنر نےکہا: ’ری پبلکن سینیٹ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ہو سکتا ہے جس کے ذریعے ایک ایسا ٹیکس سسٹم بنایا جائے جو سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی بڑھائے اور ریونیو بھی جمع کرے۔‘

ایڈم پوزن سمجھتے ہیں کہ امریکی ملٹی نیشنل کمپینیوں، خاص طور پر بڑی ٹیک کمپنیوں، کو اپنا منافع بیرون ملک رجسٹر کروانے سے روکنا ایک ایسا معاملہ ہو سکتا ہے جس پر ڈیموکریٹ اور ری پبلکن ساتھ کام کر سکیں۔ اس کے لیے وہ ڈیجیٹل جائنٹس کی اجارہ داری کے خلاف ضابطے بنانے پر بھی کام کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’اس کو ری پبلکنز کی سپورٹ ملے گی کیونکہ وہ ٹیک کو اپنا دوست نہیں سمجھتے، ہو سکتا ہے آپ کو قانون سازی بھی دیکھنے کو ملے۔‘

زیادہ تر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بائیڈن صدر ٹرمپ کی نقصان دہ تجارتی جنگوں کو ختم کرکے امریکی معیشت کی مدد کر سکتے ہیں۔ وہ صدر ٹرمپ کی جانب سے یورپی اور ایشیائی ممالک کر لگائے گئے ٹیرف ختم کرسکتے ہیں تاہم چین سے ٹیکنالوجی کی منتقلی کے حوالے سے پابندیاں شاید لاگو رہیں کیونکہ دونوں پارٹیوں میں چین مخالف خیالات ہیں۔

امریکی ٹریژری سیکرٹری لیری سمرز کہتے ہیں: ’یہ تحفظ پسندی ختم کرنے کا ، تجارتی معاہدوں کو نافذ کرنے اور فنانس اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں ریگولیشن کے ایجنڈے لانے کا صحیح وقت ہے۔‘

تاہم وہ امریکی کارپوریشنز کے لیے نئے تجارتی معاہدوں کو قائم کرنے کی مخالف کرتے ہیں۔

کچھ کو یہ بھی لگتا ہے کہ بائیڈن ملک میں کاربن ٹیکس نافذ کرنے میں ناکام ہوں گے، لیکن انہیں اپنے منشور کے مطابق ان درآمدات پر نام نہاد بارڈر ایڈجسٹمنٹ ٹیکس لگانے پر بھی غور کرنا چاہیے جن کی پیداوار میں کاربن کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہو۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تحت کیا جانا چاہیے نہ کہ اس کے خلاف۔

ماہرین امیگریشن کو بھی ایک اہم معاشی پالیسی قرار دیتے ہیں، جس کو صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے دبائے رکھا اور 2016 سے اب تک تارکین وطن کی تعداد 10 کروڑ سے کم ہو کر چھ لاکھ تک ہوگئی ہے۔

سابق صدر باراک اوباما کے معاشی مشیر جیسن فرمن نے کہا: ’امیگریشن پر تمام پابندیاں فوراً ختم ہو جانی چاہییں اور ان کی جگہ ایسی پالیسیاں آنی چاہییں جو موجودہ قانون کے مطابق ہوں۔‘

انہوں نے کہا: ’امریکی معیشت امیگریشن پر پابندیوں سے طویل مدتی نقصان برداشت کر رہی ہے کیونکہ یہ پالیسیاں باصلاحیت افراد کو امریکہ آنے اور اس کی معاشی ترقی میں ہاتھ ڈالنے سے روک رہی ہیں۔‘

تاہم جہاں بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے یہ سب اقدامات مدد گار ہوں گے، وہیں کچھ ماہرین معیشت کا ماننا ہے کہ یہ امریکی معیشت کی ’بحالی‘ کے لیے ناکافی ہوں گے، جو ایک لمبے عرصے سے عدم مساوات، کم سرمایہ کاری، ناکافی تعلیم اور صحت اور ٹیکس سسٹم کا شکار ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ