اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے نے کسی غیر اعلانیہ سائٹ پر جوہری مواد کی موجودگی سے متعلق ایران کی وضاحتوں کو 'ناقابل اعتبار' قرار دے دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ 'ایرانی حکام کی جانب سے مذکورہ سائٹ کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کرنے کے باوجود ایجنسی نے ایران کو آگاہ کیا کہ وہ اس کے ردعمل کے تکنیکی طور پر قابل اعتبار نہ ہونے پر غور کر رہا ہے۔'
اس رپورٹ میں کہا گیا کہ 'ایران کی جانب سے ظاہر نہ کیے گئے کسی مقام پر، یورینیئم ذرات کی موجودگی کے بارے میں تہران کی طرف سے ایک مکمل اور فوری وضاحت کی ضرورت ہے۔'
اگرچہ آئی اے ای اے نے زیر بحث جگہ کی نشاندہی نہیں کی ہے، تاہم سفارتی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ تہران کے ضلع ترک آباد میں ہے۔ اس سے قبل اسرائیل نے بھی اسے خفیہ جوہری سرگرمی کے مبینہ مقام کے طور پر شناخت کیا تھا۔
اس مسئلے سے واقف ذرائع نے بتایا کہ اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ مذکورہ سائٹ کو یورینیئم کی پروسیسنگ کے لیے استعمال کیا گیا تھا، تاہم 2018 کے آخر تک اسے ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیے جانے کا امکان ہے۔
آئی اے ای اے میں ایران کے سفیر کاظم غریب آبادی نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ 'کسی بھی قسم کی جلد بازی سے پرہیز کیا جانا چاہیے۔'
انہوں نے مزید کہا: 'اس معاملے کے حل کو حتمی شکل دینے کے لیے بات چیت جاری ہے۔'
اس رپورٹ میں دو دیگر سائٹس کے بارے میں کوئی نئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں جہاں سے آئی اے ای اے نے ستمبر میں نمونے لیے تھے اور جس کے بارے میں قیاس ہے کہ وہاں غیر اعلانیہ جوہری سرگرمیاں 2000 کی دہائی کے اوائل میں ہوئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان نمونوں کا تجزیہ جاری ہے، تاہم اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ایران کی افزودہ یورینیئم کا ذخیرہ عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے معاہدے کے تحت اب مقرر کردہ حد سے 12 گنا سے بھی زیادہ ہے، اس کے باوجود بھی کہ آخری رپورٹ کے بعد اس ذخیرے کی شرح میں کمی آرہی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2015 میں ہونے والے معاہدے سے مئی 2018 میں دستبردار ہوگئے تھے اور اس کے بعد ایران پر دوبارہ سے معاشی پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
جس کے جواب میں ایران مئی 2019 سے اس معاہدے میں رکھی گئی اپنی جوہری سرگرمی کی حدود سے تجاوز کر رہا ہے۔
2015 کے جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) میں رکھی گئی یورینیئم کی ذخیرے کی مقدار اور افزودگی کی سطح میں حدود کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ، ایران اس معاہدے کے تحت اجازت سے کہیں زیادہ جدید سینٹرفیوجیز (مائع اور گیس کو الگ کرنے والے آلات) استعمال کررہا ہے۔
آئی اے ای اے کی حالیہ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ جولائی میں ایک دھماکے کے نتیجے میں اس سائٹ کا ایک اور حصہ خراب ہونے کے بعد نطنز (Natanz) جوہری مرکز کے زیر زمین حصے میں سینٹرفیوجیز لگائے گئے تھے۔
تین یورپی طاقتیں یعنی فرانس، برطانیہ اور جرمنی جو اب بھی 2015 کے معاہدے کی حامی ہیں، اسے برقرار رکھنے کے لیے راستے تلاش کر رہی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے ڈیموکریٹ حریف جو بائیڈن کے اگلے امریکی صدر کے انتخاب کے نتیجے میں کچھ امید نظر آئی ہے کہ اس معاہدے کی بحالی ہوسکتی ہے کیونکہ بائیڈن نے ایران کو 'سفارت کاری کی طرف واپسی کا معتبر راستہ' پیش کیا ہے۔
بدھ کے روز ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ ان کا ملک 'کوئی بھی موقع' ہاتھ سے جانے نہیں دے گا، جس سے 'ہمارے کندھوں سے پابندیوں کا دباؤ ختم ہوسکے۔'
ساتھ ہی ایران کا اصرار ہے کہ جے سی پی او اےمعاہدے کی پاسداری کے لیے امریکہ کو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عائد پابندیاں ختم کرنا ہوں گی۔