پنجاب کے جنوبی ضلع رحیم یار خان میں محکمہ وائلڈ لائف نے دو شکاریوں کو گرفتار کر کے ان کے قبضے سے شارک (لالیاں) اور سیریا (بیبلر) سمیت 200 سے زائد پرندے برآمد کر لیے۔
حکام کے مطابق گرفتار ہونے والے شکاری زاہد حسین اور سفیان علی کاتعلق وہاڑی ضلع سے ہے اور وہ گذشتہ کئی سالوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔
محکمہ وائلڈ لائف رحیم یار خان کے ڈسٹرکٹ آفیسر اکرم قیصر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صادق آباد اور رحیم یار خان کے قریب ان ’حرام پرندوں‘ کی بہت بڑی تعداد سردیوں میں موجود ہوتی ہے اس لیے یہاں دسمبر اور جنوری میں ان کا شکار کرکے اسے تیتر، بٹیر اور چڑوں کے گوشت کی صورت میں فروخت کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایسے شکاریوں کے خلاف کارروائی جاری رہتی ہے لیکن اس مرتبہ یہ دونوں شکاری رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔
اکرم قیصر کے مطابق ملزمان کے قبضے سے 200 سے زائد پرندے، جن میں شارک (لالیاں) اور سیریا (بیبلرز) شامل ہیں، برآمد کیے گئے ہیں اور انہیں قانون کے مطابق عدالت نے 15، 15 ہزار روپے جرمانے کی سزا دی ہے، اور ان کا سامان بھی ضبط کر لیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان شکاریوں کو گرفتار کرنے والے انسپکٹر اختر حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وائلڈ لائف کی ٹیم کو اطلاع ملی کہ ان کے علاقے میں پرندوں کا شکار کیا جا رہا ہے۔ جب وہ موقعے پر پہنچے تو دو شکاری چھرے والی بندوق سے ان پرندوں کا شکار کرنے میں مصروف تھے اور انہوں نے 200 سے زائد مردہ پرندے جمع کر رکھے تھے، جنہیں قبضے میں لے لیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ایک منظم گروہ ہے جو ہر سال مختلف علاقوں سے ان پرندوں کا شکار کر کے گوجرانوالہ میں بھیجتا ہے جہاں انہیں چڑے، تیتر اور بٹیر کا گوشت کہہ کر فروخت کیا جاتا ہے۔
اختر حسین نے مزید بتایا کہ ملزم سفیان علی کو گذشتہ سال بھی جنگلی پرندوں کا شکار کرنے پر پکڑا گیا تھا لیکن وہ جرمانہ دے کر آزاد ہو گیا جبکہ اس بار بھی وہ دونوں جرمانہ ادا کر کے رہا ہو گئے ہیں کیونکہ اس بارے میں کوئی قانون نہ ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف سخت کارروائی ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اس معاملے پر فوڈ اتھارٹی اور پولیس کے ساتھ مل کر بڑا آپریشن کرنے کی ضرورت ہے ورنہ شہریوں کو چڑے ،بٹیر اور تیتروں کے گوشت کا دھوکہ دے کر ان جنگلی پرندوں کا گوشت کھلانے کا سلسلہ بند نہیں ہو سکتا۔‘
واضح رہے کہ محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے غیر قانونی شکار کے خلاف کارروائی تو ہوتی ہے مگر اس پر پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا۔