'شو آف ہینڈز کے ذریعے سینیٹ الیکشن ترمیم کے بغیر ناممکن'

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت سینیٹ انتخابات شو آف ہینڈ (ہاتھ اٹھا کر) کے ذریعے کروانے کی خواہش مند ہے جبکہ آئین کے تحت ایسا خفیہ رائے شماری (سیکریٹ بیلٹ) کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ 

(ٹوئٹر)

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے کروانے کے لیے آئین پاکستان میں ترمیم کو ضروری قرار دے دیا ہے۔

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات کے طریقہ کار سے متعلق ایک صدارتی ریفرنس زیر سماعت ہے جس پر عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن  سے رائے طلب کی تھی جس کا جواب ہفتے کو جمع کرایا گیا۔ 

الیکشن کمیشن نے اپنے جواب میں واضح کیا کہ سینیٹ انتخابات صرف خفیہ رائے شماری سے ہی ہو سکتے ہیں اور اس سلسلے میں کوئی بھی دوسرا طریقہ اختیار کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم ضروری ہو گی۔ 

یاد رہے کہ پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا کے آدھے اراکین کی میعاد مارچ کو ختم ہو رہی ہے، اور  خالی ہونے والی نشستوں کے لیے گیارہ مارچ سے قبل انتخابات ہونا ہیں۔ 

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت سینیٹ انتخابات شو آف ہینڈ (ہاتھ اٹھا کر) کے ذریعے کروانے کی خواہش مند ہے جبکہ آئین کے تحت ایسا خفیہ رائے شماری (سیکریٹ بیلٹ) کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ 

وفاقی حکومت سینیٹ انتخابات میں مبینہ اور ممکنہ ہارس ٹریڈنگ کی حوصلہ شکنی کے لیے خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کا طریقہ اپنانے پر زور دیتی ہے۔ 

سینیٹ انتخابات میں رائے شماری کا طریقہ کار تبدیل کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے رائے لینے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے اعلی عدالت کو صدارتی ریفرنس بھیجا گیا۔ 

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات شو آف ہینڈ کے ذریعے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت پیر کو ہو گی۔ 

بارہ صفحات پر مشتمل جواب میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 226 کے علاوہ دوسرے کئی آرٹیکلز اور ان میں درج اہم الفاظ کی تشریح کی اور اس سلسلے میں کئی عدالتی فیصلوں سمیت حوالہ جات فراہم کیے۔ 

الیکشن کمیشن کےجواب میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہوتے ہیں اور خفیہ رائے شماری ختم کرنے کے لیےآئینی ترمیم کرنا ہو گی۔  

الیکشن کمیشن کےمطابق بھارتی آئین میں خفیہ رائے شماری کا ذکر موجود نہیں ہے اور وہاں کی عدالتوں نے آئین میں خفیہ رائے شماری کا ذکر موجود نہ ہونے پر انحصار کیا۔ 

الیکشن کمیشن کے جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان میں مجموعی طور پر پندرہ انتخابات کا ذکر ہے، جن میں سے صرف وزیر اعظم اور وزرا اعلی کے انتخابات کو ہی خفیہ رائے شماری سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔ 

دوسری طرف جماعت اسلامی نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی مخالفت کر تے ہوئے ریفرنس خارج کرنے کی استدعا کی ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جماعت اسلامی نے اپنا تحریری موقف ہفتے کو سپریم کورٹ میں جمع کرایا جس میں کہا گیا ہے کہ شو آف ہینڈ کیلئے ذریعہ سینیٹ انتخابات کرانے کی آئین میں گنجائش موجود نہیں ہے۔ 

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کنور دلشاد نے الیکشن کمیشن کے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب پر رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: 'میرا تو شروع سے یہی موقف تھا کہ بغیر آئینی ترمیم کے سینیٹ انتخابات کا طریقہ کار تبدیل نہیں کیا جا سکتا، الیکشن کمیشن کی رائے آئین کے عین مطابق ہے۔'

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ بھیجنے سے پہلے الیکشن کمیشن سے مشاورت کرنا چاہیے تھی۔ 

'کیونکہ ریفرنس صدر پاکستان نے بھیجا ہے تو انہیں چاہیے تھا کہ ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے وہ چیف الیکشن کمشنر سے رائے لیتے۔'

کنور دلشاد نے مزید کہا کہ تمام ملکی قوانین آئین کے تحت بنتے ہیں اور انتخابات سے متعلق قانون الیکشنز  ایکٹ 2017 آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت بنایا گیا ہے، اس لیے سینیٹ انتخابات اس آرٹیکل کے مطابق خفیہ رائے شماری سے ہی ہو سکتے ہیں۔ 

الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری نے کہا کہ خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کے ذریعے سینیٹ  انتخابات کروانے کا اب وقت نہیں رہا اور وہ اس لیے کہ اب آئین میں ترمیم کا وقت نہیں ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف حکومت کے پاس پارلیمان میں آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے مطلوبہ اراکین کی تعداد بھی پوری نہیں ہے۔ 

یاد رہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 226 کے مطابق: 'آئین کے تحت ہونے والے تمام انتخابات، ماسوائے وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے انتخابات کے، خفیہ رائے دہی کے ذریعے منعقد ہوں گے۔' 

دوسری طرف پاکستان میں انتخابات کروانے سے متعلق رائج قانون الیکشنز ایکٹ 2017 کی شق 6 میں بھی پارلیمان کے ایوان بالا کے چناؤ کے لیےخفیہ رائے شماری (سیکریٹ بیلٹ) کا ذکر ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان