امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ دفاع نے قابلیت رکھنے والے دو جرنیلوں کی ترقی کو اس وقت تک موخر کر دیا جب تک صدر ٹرمپ عہدے پر موجود رہے۔ ان دونوں امیدواروں میں ایک چیز مشترک تھی اور وہ یہ کہ دونوں ہی خواتین تھیں۔
اب جب کہ صدر جو بائیڈن حکمران ہیں تو جنرل جیکولین وان اووست، جن کا تعلق ایئرفورس سے ہے اور لیفٹیننٹ جنرل لورا رچرڈسن جن کا تعلق آرمی سے ہے، کی ترقی کے لیے وائٹ ہاؤس سے منظوری کی توقع کی جا رہی ہے۔
ان دونوں کو سینیٹ سے توثیق کے بعد بالترتیب ہیڈ آف ٹرانسپورٹیشن کمانڈ اور سدرن کمانڈ تعینات کیا جائے گا۔
لیکن ایسا تقریباً ناممکن بھی رہ چکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق گذشہ سال سابق وزیر دفاع مارک ایسپر اور چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف مارک ملے دونوں دو خواتین کے نام تجویز کرنے پر فکرمند تھے کہ ان کے خیال میں صدر ٹرمپ اس پر کبھی رضامند نہیں ہوں گے۔
سابق وزیر دفاع مارک ایسپر نے نیو یارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’ان کو اس لیے چنا گیا تھا کہ یہ دونوں اس عہدے کے لیے بہترین افسران تھیں اور میں ان کی ترقی کو اس لیے نہیں روکنا چاہتا تھا کہ صدر ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں کسی کو ایسا لگتا ہے کہ میں نے ان کی سفارش کی ہے یا محکمہ دفاع اس پر سیاست کر رہا ہے۔ یہ ایسا معاملہ نہیں تھا۔ وہ اس حوالے سے اہلیت رکھتی تھیں اور ہم درست فیصلہ کر رہے تھے۔‘
اپنی انتظامیہ کے آخری غیر یقینی ہفتوں میں صدر ٹرمپ نے پینٹاگون کے اعلیٰ عہدیداروں کی ایک بڑی تعداد کو برطرف کر دیا تھا جن میں وزیر دفاع مارک ایسپر بھی شامل تھے۔ ان افراد کی جگہ اپنے وفاداروں کو تعینات کیا گیا تھا جو برطرف کیے جانے والے افراد کے مقابلے میں بہت کم تجربہ رکھتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مارک ایسپراور مارک ملے کو خدشہ تھا کہ صدر ٹرمپ وان اووست اور رچرڈسن کے بارے میں بھی یہی فیصلہ کریں گے اور ان کی ترقی کو روکتے ہوئے ان کی جگہ اپنے امیدواروں کی تعیناتی کی تجویز دیں گے۔
ایسا ہونے سے روکنے کے لیے پینٹاگون کے دونوں عہدیداروں نے ان کی تعیناتی کی سفارشات کو تب تک موخر کرنے کا فیصلہ کیا، جب تک وائٹ ہاؤس میں نئے صدر نہیں آ گئے۔ انہیں توقع تھی کہ صدر بائیڈن اس حوالے سے آمادگی ظاہر کریں گے۔
پینٹاگون نے اسی حکمت عملی پر عمل کیا، باوجود اس کے کہ مارک ایسپر کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔
گو کہ سابق وزیر دفاع نے دوٹوک انداز میں ایسا نہیں کہا ہے لیکن ایسا ممکن ہے کہ ان کے اور مارک ملے کے اس فیصلے میں دونوں افسران کے خاتون ہونے نے بھی کردار ادا کیا ہو کیونکہ صدر ٹرمپ صنفی تعصب پر مبنی جملے بازی کی ایک تاریخ رکھتے تھے اور یہ حقیقت کہ ترقی کے لیے تجویز کردہ دونوں اعلیٰ عہدیدار خواتین تھیں۔
سابق صدر کی انتظامیہ نے اس وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس تعطلی کی وجہ کانگریس کے پاس گذشتہ سال کے آخر تک ان نامزدگیوں پر غور کرنے کا وقت نہ ہونا ہے۔
مارک ایسپر کی جگہ وزیر دفاع مقرر کیے جانے کرسٹوفر ملر کا نیو یارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’یہ ان نامزدگیوں پر غور کرنے کے وقت کی وجہ سے تھا۔ اس کی وجہ ان کا خواتین ہونا نہیں تھا۔‘ کرسٹوفر ملر صدر بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے سے تین ماہ پہلے وزیر دفاع مقرر کیے گئے تھے۔
© The Independent