اٹارنی جنرل پاکستان نے منگل کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے کا صدارتی ریفرنس سننے والے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ سے استدعا کی ہے کہ وہ بدھ (24 فروری) تک ریفرنس کی سماعت مکمل کر لے۔
آج جب چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت سے سماعت کل تک مکمل کر کے فیصلہ جاری کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ’ریفرنس یکم مارچ تک چلتا رہا تو اس کا فائدہ نہیں ہوگا۔‘
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ’ریفرنس میں کسی دوسرے کے دلائل سننا لازمی نہیں، عدالت کل میرا جواب الجواب سن کر اپنی رائے دے۔ بار کونسلز کا سیاسی معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ میں بار کونسلز کے دلائل سننے کی بھرپور مخالفت کرتا ہوں۔‘ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ریفرنس پر کارروائی مکمل کرنی ہے۔‘
عدالت عظمیٰ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے رضا ربانی کو کل دلائل مکمل کرنے کے لیے آدھے گھنٹے کا وقت دے دیا جبکہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے وکیل فاروق ایچ نائیک، پاکستان مسلم لیگ ن کے بیرسٹر ظفر اللہ کو بھی کل آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔
دوسری جانب جمیعت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے رضا ربانی کے دلائل کے حق میں یعنیٰ ووٹنگ خفیہ رکھنے کی حمایت کی۔
عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کی بار کونسلز کے دلائل نہ سننے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں بھی کل آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ تمام وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر اٹارنی جنرل جواب الجواب دیں گے، جس کے بعد کیس کی سماعت مکمل ہو جائے گی۔
رضا ربانی نے آج اپنے دلائل میں کہا کہ ’آئین ووٹ ڈالنے والے کی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتا، عدالت کے سامنے سوال سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل 226 کے اطلاق کا ہے۔‘
اس موقعے پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’تمام آفس ہولڈرز کے لیے انتخابات کا طریقہ کار ہے۔ الیکشن ایکٹ2017 میں اسمبلی و سینیٹ کے انتخابات کا طریقہ کار درج ہے۔ تمام قوانین کا جنم آئین سے ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’یہ حقیقت ہے کہ صدارتی الیکشن کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا گیا۔ چیئرمین سینیٹ اور سپیکر اسمبلی کا الیکشن ان کےعہدے کا انتخاب ہوتا ہے اور سینیٹ الیکشن کا مکمل طریقہ کار آئین میں نہیں قانون میں ہے۔‘
رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ متناسب نمائندگی کا مطلب یہ نہیں کہ اسمبلی کی اکثریت سینیٹ میں بھی ملے۔ متناسب نمائندگی نظام کے تحت سیٹیوں کی تعداد میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ ’جہاں ووٹوں کی خریدو فروخت ہوگی، قانون اپنا راستہ بنائے گا۔ شواہد کے بغیر سیٹوں کی تعداد میں فرق کو ووٹ فروخت کرنا نہیں کہہ سکتے۔‘
اس موقعے پر چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ الیکشن اتحاد کی گنجائش سیاسی جماعتوں میں ہمشہ رہتی ہے۔ جس پر رضا ربانی نےجواب دیا کہ بیلٹ پیپرز کی سیکریسی متاثر نہ ہو تو الیکشن کمیشن ووٹوں کا جائزہ لے سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ’ایسا طریقہ بھی بتا دیں کہ ووٹ دیکھا بھی جائے اور سیکریریسی بھی متاثر نہ ہو، اگر معاہدہ ہو کہ آدھی رقم ووٹ ڈالنے کے بعد ملے گی تو پھر کیا ہوگا؟‘
جس پر رضا ربانی نے جواباً کہا کہ ’رشوت لینا یا لینے پر آمادگی ظاہر کرنا ووٹ دینے سے پہلے کے مراحل ہیں۔ ووٹ کے لیے پیسے لینے والا ووٹنگ سے پہلے کرپشن کر چکا ہوتا ہے۔ کرپشن ووٹنگ سے پہلے ہوتی ہے تو اس کے لیے ووٹ دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ کوئی پیسے لیتا پکڑا گیا تو ویڈیو جیسے شواہد بھی ہوں گے۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جہاں ویڈیو آچکی ہے وہاں کیا کارروائی ہوئی؟ پیسہ لینا اور ووٹ دینا دونوں کو ثابت کرنا ہو گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو لوگ کونے میں کھڑے ہو کر بات کریں تو گواہ کہاں سے آئے گا؟ ایسا کوئی نظام نہیں کہ معلوم ہو سکے کس نے کس کو ووٹ دیا؟ رشوت ووٹ سے جڑی ہے تو اس کا جائزہ کیسے نہیں لیا جاسکتا؟‘
دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ قانون میں جو بھی درج ہے اس پر نیک نیتی سے عمل کرنا ہوتا ہے۔ قانون مکمل طور پر معصوم اور اندھا ہوتا ہے۔ قانون پر بدنیتی سے عمل ہو تو مسائل جنم لیتے ہیں۔‘
اس کے ساتھ ہی عدالت نے حتمی دلائل کے لیے سماعت 23 فروری تک کے لیے ملتوی کر دی۔