ترکی کے مشہور مزاحیہ اداکار اور سینیئر لکھاری مجتہد گیزن کے نصف صدی پر مشتمل کیریئر میں کئی نشیب و فراز آئے جن میں عالمی ایوارڈز، اقوام متحدہ کے خیر سگالی سفیر کی حیثیت سے خدمات اور 1980 کی بغاوت کے بعد جیل کی سزا بھی شامل ہے۔
77 سال کی عمر میں اب اس مزاح نگار اور شاعر کو ترک صدر رجب طیب اردوغان کی مبینہ ’توہین‘ کے الزام کا سامنا ہے جس پر ان کو ایک بار پھر جیل کی ہوا کھانی پڑ سکتی ہے۔
وہ ترک صدر کی برسوں سے جاری ان فنکاروں کے ساتھ لڑائی کا تازہ ترین شکار بننے جا رہے ہیں جنہیں وہ ’نام نہاد آرٹسٹ‘ کہتے ہیں۔
گیزن اپنے 79 سالہ ساتھی کامیڈین میٹن اکپنر کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔ اس جوڑی کو 2018 میں اپوزیشن کے ایک ٹیلی ویژن شو کے دوران کیے گئے تبصروں کی وجہ سے عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس میں وہ مبینہ طور پر صدر اردوغان کی ’توہین‘ کے مرتکب ہوئے تھے۔
شو میں گیزن نے اردوغان کے بارے میں کہا تھا کہ انہیں ’اپنی مقام کا پتہ ہونا چاہیے۔‘ انہوں نے آن ایئر شو میں مزید کہا تھا: ’رجب طیب اردوغان دیکھو، آپ ہماری حب الوطنی کا امتحان نہیں لے سکتے۔ آپ کو اپنا مقام معلوم ہونا چاہیے۔‘
ان کے ساتھی اداکار اکیپنر نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’اگر ہم (جمہوری ملک) نہیں بن پائے تو۔۔۔ اس رہنما کو سولی پر لٹکایا جا سکتا ہے یا انہیں کسی تہہ خانے میں زہر دے کر ہلاک کیا جا سکتا ہے۔‘
یہ ایسے خطرناک تبصرے تھے جو ایک ایسے ملک میں سنے گئے جہاں 2016 کی ناکام بغاوت کے بعد اردوغان نے مزید طاقت حاصل کی اور جہاں ترک رہمنا کے خلاف بات کرنا قابل سزا جرم بن گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان اداکاروں کے خلاف مقدمے نے ملک بھر کے طلبہ کو متاثر کیا جو سڑکوں پر مظاہرے کر رہے ہیں۔ ان مظاہروں سے تاثر ملتا ہے کہ 2003 سے اقتدار پر قابض اردوغان کے خلاف جمہوریت پسند ترک عوام کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔
سرکاری پراسیکیوٹرز نے عدالت سے ان دونوں مشہور شخصیات کے خلاف ’توہین‘ کے جرم میں چار سال اور آٹھ ماہ تک کی قید کی سزا کی استدعا کی ہے۔ عدالت پیر کو اس مقدمے کا فیصلہ سنا سکتی ہے۔
اس سے قبل بھی سابقہ مس ترکی سے لے کر سکول کے بچوں تک ہزاروں شہریوں پر سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن پر اردوغان کی توہین کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔
مزاح اور طنزیہ تبصروں کے حوالے سے صدر اردوغان نے 2018 میں خبردار کیا تھا کہ ان کے نقادوں کو ’قیمت ادا کرنا ہو گی۔‘