کویت کے خارجہ امور کے وزیر ڈاکٹر احمد ناصر ال محمد ال صباح نے وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانی اینڈ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ سید ذوالفقار بخاری کو یقین دہانی کرائی ہے کہ کویت مختلف شعبوں میں پاکستانی ہنرمند افراد کی شرکت کو مستقبل میں مزید بڑھائے گا۔
معاون خصوصی ذوالفقار بخاری نے اپنی ٹویٹ میں بتایا ہے کہ ڈاکٹر احمد ناصر ال صباح نے یہ یقین دہانی ایک ملاقات کے دوران کی ہے۔
کویت کے وزیر خارجہ ڈاکٹراحمد ناصر المحمد ال صباح دو روزہ دورے پر پاکستان آئے تھے جہاں امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ وہ پاکستانی شہریوں کے لیے روزگار کے ویزوں کی پابندی ختم کرنے کا اعلان کریں گے۔
پاکستانی وزیر داخلہ شیخ رشید نے بدھ کو میڈیا سے گفتگو میں بتایا تھا کہ کویت پاکستانیوں کے لیے روزگار کے ویزوں کی پابندی ختم کرنے جا رہا ہے۔
پاکستانی شہریوں پر پابندی کے حوالے سے اسلام آباد میں بیرون ملک روزگار فراہم کرنے والی کمپنی کے سربراہ عرفان اللہ نے کہتے ہیں کہ کویت کے ویزوں پر پابندی ہٹنے کی صورت میں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد اس خلیجی ملک جا سکے گی۔
’اکثر پاکستانی خصوصاً ہنر مند اور پڑھے لکھے پروفیشنلز اب بھی بیرون ملک روزگار کو فوقیت دیتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ کویت پاکستان کے علاوہ ساری دنیا سے ہنرمند اور غیر ہنرمند لوگ منگوا رہا ہے اور سب سے بڑی تعداد فلپائنی اور نیپالی شہریوں کی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک کروڑ سے زیادہ پاکستانی دنیا کے مختلف ممالک میں روزگار کی غرض سے موجود ہیں، جن میں سے بہت بڑی تعداد عرب ممالک میں ہے۔
بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق سال 2010 تک ایک لاکھ 80 ہزار پاکستانی کویت میں موجود تھے، جبکہ 2011 میں ویزوں پر پابندی کے بعد محض تین ہزار لوگ اس خلیجی ملک جا سکے ہیں۔
عرفان اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کے لیے روزگار کے ویزوں پر پابندی کے باوجود صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ہنرمند کویت جاتے رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت بھی ان کے پاس کویت السلام ہسپتال کے لیے 70 سے 80 ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی ڈیمانڈ موجود ہے، جو آئندہ چند ہفتوں میں بیرون ملک چلے جائیں گے۔
اسی طرح پشاور کے رہائشی مختار حسین جو 15 سال قبل کویت میں نوکری کرتے تھے اور ان دنوں کو وہ اب بھی اپنی زندگی کا سنہرا دور قرار دیتے ہیں۔
پیشے کے لحاظ سے موٹر مکینک مختار حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’وہاں ماحول اتنا اچھا تھا کہ میں آج بھی کویت میں کام کرنا چاہتا ہوں لیکن ویزوں پر پابندی کے باعث اب ایسا ممکن نہیں۔‘
اسلام آباد ہی میں قائم بیرون ملک روزگار فراہم کرنے والی ایک دوسری کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر عجب خان کہتے ہیں کہ کویت کے ویزے کھلنے کی صورت میں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ہنر مند وہاں جا سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عمارتوں اور سڑکوں کی تعمیرات سے متعلق شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہنر مندوں اور پروفیشنلز کی کویت میں بہت زیادہ ضرورت رہتی ہے۔
’ہزاروں عام مزدور اور تعمیراتی کاریگروں کے علاوہ سپروائزرز سے سول انجنئیرز تک کویت جا سکیں گے جبکہ ڈرائیوروں کی نوکریاں بھی بہت نکلیں گی۔‘
عجب خان نے مزید کہا کہ تیل اور گیس کے شعبے میں پاکستانیوں کو روزگار مل سکتا ہے جبکہ گھریلوں کام کاج کرنے والے ملازمین، نینیز، بیوٹیشنز اور معاونین (ہیلپرز) وغیری کے لیے بھی بے پناہ مواقع پیدا ہوں گے۔
کویتی دینار دنیا بھر میں مہنگی ترین کرنسی ہے اور پاکستان میں ایک کویتی دینار تقریباً 517 پاکستانی روپے کے برابر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیرون ملک روزگار کرنے والے پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد (تقریباً 56 لاکھ) سعودی عرب میں مقیم ہے اور سعودی ریال کی قیمت 42 پاکستانی روپے ہے، جبکہ اومانی ریال، بحرینی دینار اور متحدہ عرب امارات کے درہم کی قیمتیں بالترتیب 406، 414 اور 42 روپے ہیں۔
کویت میں کام کرنے کے لیے پسندیدگی کی دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے مختار حسین نے کہا کہ کویتی دینار کافی مہنگا ہے جس سے وہاں کام کرنے والوں کو کم تنخواہ میں بھی پاکستان میں کافی پیسے مل جاتے ہیں۔
پاکستانیوں کے لیے کویت میں کام کرنے کی پابندی ختم ہونے کی صورت میں دوسرا فائدہ ملک کو غیر ملکی زرمبادلہ کی آمد سے ہو گا۔
یاد رہے کہ 2017 میں پاکستان کو بیرون ملک سے حاصل ہونے والی غیر ملکی ترسیلات کا حجم 13 ارب امریکی ڈالر تھا، جبکہ گذشتہ مہینوں کے دوران بیرون ملک روزگار کرنے والے پاکستانیوں کی جانب سے ماہانہ دو ارب ڈالر بھیجے جا رہے ہیں۔
معاشی امور پر لکھنے والے صحافی ذیشان حیدر کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کو غیر ملکی زرمبادلہ کی اشد ضرورت ہے اور غیر ملکی ترسیلات اس سلسلے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کویت میں پاکستانیوں کے کام کرنے پر پابندی ختم ہونے کی صورت میں بہت بڑی تعداد میں ہنر مندوں اور غیر ہنر مندوں کا وہاں جانے کا امکان ہے جس سے پاکستان کو زرمبادلہ حاصل ہو گا۔
یاد رہے کہ 1985 میں اس وقت کے کویتی امیر شیخ جابر الاحمد کے قافلے پر دہشت گرد حملہ ہوا، جس میں امیر تو معمولی زخمی ہوئے تاہم ان کے کئی گارڈز ہلاک ہوئے۔
تحقیقات سے معلوم ہوا تھا کہ حملے میں ملوث افراد جعلی پاکستانی پاسپورٹ استعمال کر کے کویت میں داخل ہوئے تھے، جس کے بعد امیر شیخ الاحمد نے پاکستانیوں کو ویزے کا اجرا بند کر دیا تھا۔
کویتی حکومت اس پابندی میں گاہے بگاہے نرمی بھی کرتی رہی ہے تاہم 2011 میں ایک مرتبہ پھر پاکستانی شہریوں کے لیے روزگار کرنے کے ویزوں پر مکمل پابندی لگا دی گئی تھی۔