یورپی یونین کی جانب سے بائیڈن انتظامیہ کو جوہری معاہدے میں واپس لانے کی کوششوں کے بعد اب امریکہ اور ایران آئندہ ہفتے ویانا میں بالواسطہ بات چیت کا آغاز کریں گے۔
یورپی یونین نے ایک ویڈیو کانفرنس کے بعد جاری ایک بیان میں کہا: ’جوہری معاہدے میں شامل ممالک بشمول چین، فرانس، جرمنی، روس اور برطانیہ منگل کو تہران کے جوہری عزائم کے بارے میں ذاتی حیثیت سے آسٹریا کے دارالحکومت میں ملاقات کریں گے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکہ براہ راست ان مذاکرات میں حصہ نہیں لے گا تاہم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 2018 میں جوہری معاہدے سے دست بردار ہونے کے بعد پہلی بار ایک امریکی وفد اجلاس کے موقع پر موجود ہوگا۔
یورپی یونین نے کہا کہ اس کے ثالث ویانا میں امریکہ کے ساتھ ’علیحدہ مذاکرات‘ کریں گے۔
2015 کے معاہدے میں پیچیدہ بات چیت کے بعد ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے بین الاقوامی پابندیوں سے نجات حاصل کی تھی جس کا مقصد اس خوف کو کم کرنا تھا کہ تہران کوئی جوہری ہتھیار حاصل کرسکتا ہے۔
صدر بائیڈن نے اس شرط پر ایک بار پھر امریکہ کی جوہری معاہدے میں شمولیت کا عندیہ دیا ہے کہ ایران پہلے ان وعدوں پر دوبارہ عمل درآمد کرے جن پر اس نے سابق صدر ٹرمپ کے اقدامات اور نئی پابندیوں کے جواب میں عمل درآمد ترک کردیا تھا۔
تاہم تہران کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کو اس کے لیے پابندیوں کو ختم کرنا ہوگا اور یہ کہ وہ اس حوالے سے امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کرے گا۔
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اصرار کیا کہ بات چیت کا مقصد پابندیوں کے خاتمے کے لیے جلد اقدامات اور جوہری اقدامات کو حتمی شکل دینا ہے۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا: ’ایران اور امریکہ کے درمیان کوئی (براہ راست) مذاکرات نہیں ہو رہے۔ یہ غیر ضروری ہے۔‘
ادھر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ویانا مذاکرات کو ایک ’صحت مند اقدام‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن تہران کے ساتھ براہ راست بات چیت کے لیے بھی تیار ہے۔
تاہم انہوں نے متنبہ کیا کہ ’یہ (مذاکرات کے حوالے سے) ابتدائی دن ہیں اور ہم ان میں فوری پیش رفت کی توقع بھی نہیں کر رہے کیونکہ آگے مشکل بات چیت متوقع ہے۔‘
امریکی محکمہ خارجہ کی نائب ترجمان جیلینا پورٹر نے کہا کہ مذاکرات میں پابندیوں میں نرمی سے متعلق اقدامات پر غور کیا جائے گا. تاہم انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیل بتانے سے انکار کردیا گیا۔
دوسری جانب یورپی یونین کے سفارت کار اینریک مورا نے کہا کہ جمعے کو ہونے والے ورچوئل اجلاس میں ’مثبت‘ پیش رفت ہوئی ہے لیکن انہوں نے متنبہ کیا کہ اس معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
انہوں نے جوہری معاہدے کے حوالے سے ٹویٹ کیا: ’جے سی پی او اے کو دوبارہ فعال بنانے کے لیے کلیدی مواقع کے حوالے سے آگے خاطر خواہ کام کرنا باقی ہے۔‘
یورپی یونین کے ایک سینیئر عہدے دار نے کہا کہ برسلز کو امید ہے کہ اگلے دو ماہ کے اندر اس معاہدے میں امریکی واپسی کے بارے میں کوئی حتمی معاہدہ دیکھنے کو ملے گا۔
عہدے دار نے کہا کہ باقی شریک ممالک کے ماہرین کے دو گروپ بیک وقت کام کریں گے جس میں ایک امریکی پابندیوں پر اور دوسرا گروپ ایران کے معاہدے کی خلاف ورزیوں کو رول بیک کرنے پر توجہ دے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جرمن وزیر خارجہ ہیکو ماس نے کہا کہ ’یہ اچھا ہوا ہے کہ تمام متعلقہ فریقین اگلے ہفتے ویانا میں ملاقات کریں گے۔‘
انہوں نے کہا: ’اب ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے وقت نہیں۔ ایک ایسا معاہدہ، جس کا سب احترام کریں، پورے خطے میں سلامتی کے لیے مفید ہو گا۔‘
روسی سفارت کار میخائل الیانوف نے کہا کہ ’تاثر یہ ہے کہ ہم صحیح راہ پر گامزن ہیں لیکن آگے کا راستہ آسان نہیں ہوگا اور فریقین کو سخت کوششوں کی ضرورت ہوگی۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز اس کے لیے تیار دکھائی دے رہے ہیں۔‘
انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا: ’ممکنہ طور پر امریکہ کی جے سی پی او اے میں واپسی کے لیے جوہری معاہدے پر واشنگٹن کی مکمل تعمیل ضروری ہوگی۔‘
2018 میں سابق صدر ٹرمپ نے ڈرامائی اور یک طرفہ طور پر امریکہ کو اس معاہدے سے نکال کر تہران پر مزید سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں جس کے جواب میں تہران نے جوہری سرگرمی پر اتفاق کی گئیں حدوں کو توڑنے کا اعلان کیا تھا۔