امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کو فلسطینیوں کے لیے ساڑھے 23 کروڑ ڈالرز کی امداد بحال کر دی۔
ان کے اس اقدام پر اسرائیل نے تنقید کی ہے لیکن صدر بائیڈن نے اس معاملے کے دو ریاستی حل کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل نواز پالیسی کے برعکس صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکہ فلسیطینی مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی کی وہ امداد بحال کر رہا ہے جو ان کے پیش رو نے بند کر دی تھی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق امریکہ اقوام متحدہ کے فلسطینی مہاجرین کے لیے ایجنسی کو 15 کروڑ ڈالرز دے گا جبکہ ساڑھے سات کروڑ ڈالرز مغربی کنارے اور غزہ کی معاشی ترقی کے لیے فراہم کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ امن عمل میں مدد کے لیے ایک کروڑ ڈالرز بھی دیے جا رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ایک بیان کے مطابق اردن کے شاہ عبداللہ دوم سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران امریکی صدر نے اعادہ کیا کہ امریکہ اس مسئلے کے دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے لیے امریکی امداد ’امریکی مفادات اور اقدار کے لیے اہم ہے‘ اور یہ دو ریاستی حل کی جانب ایک قدم ہیں۔
بلنکن کے بیان میں کہا گیا کہ ’یہ امداد ضرورت مندوں کے لیے اہم ریلیف ہے جو معاشی ترقی کے لیے اہم ہے اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان باہمی اور سکیورٹی تعاون کی حمایت کے لیے ہے۔‘
اسرائیل نے، جو ابتدائی مہینوں میں صدر بائیڈن پر تنقید سے باز رہا ہے، اس امداد کی بحالی کی مذمت کی ہے۔
امریکہ کے لیے اسرائیلی سفیر گیلارڈ ارڈن کا کہنا ہے کہ ’ہمارا ماننا ہے کہ نام نہاد مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی کو موجودہ شکل میں کام نہیں کرنا چاہیے۔‘
یاد رہے کہ فلسطینی مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے 60 لاکھ فلسطینیوں کے لیے رہائش، تعلیم اور اہم ضروریات کی فراہمی کا کام کرتی ہے۔
اسرائیل الزام عائد کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کی ایجنسی کے زیر انتظام چلنے والے سکولوں کے نصاب میں اسرائیل کی مخالفت پر مبنی مواد شامل ہے۔
اسرائیلی سفیر نے نصاب میں اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ نصاب سے یہودی مخالف مواد ہٹانے کو یقینی بنائے بغیر یہ امداد بحال کرنا مایوس کن ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب فلسطینی حکام پرامید ہیں کہ امداد کی بحالی صدر بائیڈن کی جانب سے اسرائیل پر غیر قانونی بستیوں کی تعمیر روکنے کے دباؤ کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔
فلسطینی وزیر اعطم محمد اشتیہ کا کہنا ہے کہ ’ہم نہ صرف امداد کی بحالی کے منتظر ہیں بلکہ امریکہ کے ساتھ سیاسی تعلقات کی بحالی کا بھی انتظار کر رہے ہیں تاکہ فلسطینی عوام کو ان کے جائز حقوق مل سکیں اور وہ ایک آزاد ریاست حاصل کر سکیں جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔‘
جنوری میں اپنی حلف برداری کے بعد صدر بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ ان کی انتظامیہ فلسطینی لبریشن آرگنازیشن (پی ایل او) کا دفتر بھی دوبارہ کھول دے گی، جو صدر ٹرمپ نے بند کر دیا تھا۔
گو کہ امریکی وزیر خارجہ نے اشارہ دیا ہے کہ ان کی انتظامیہ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کو تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی جس میں انہوں نے امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کر دیا تھا۔