ایران نے زیر زمین جوہری تنصیب نطنز پر تخریب کار حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے اور بدلا لینے کا تہیہ کیا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل سے ان کے حملے کا بدلہ لیں گے۔ یہ بات انہوں نے پیر کو ایرانی مجلس کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
ظریف نے گذشتہ روز نطنز کی جوہری تنصیبات کے حادثے کا حوالہ دیتے ہوئے اس نازک صورت حال میں ایرانی ماہرین اور جوہری تنصیبات کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے کھلے عام اعلان کیا ہے کہ وہ ایران پر عائد پابندی ختم کرنے میں کسی قسم کی پیشرفت کی اجازت نہیں دیں گے اور اب ان کا خیال ہے کہ انہوں نے اپنے مقاصد حاصل کرلیے ہیں لیکن انھیں ایران میں جوہری سطح پر مزید ترقی کے ساتھ جواب موصول ہوگا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نطنز جوہری تنصیبات پہلے کی نسبت زیادہ مضبوط ہیں اور ’اگر دشمن تصور کرتا ہے کہ ہم جوہری مذاکرات میں کمزور ہوگئے ہیں تو پھر کیا ہوگا کہ یہ بزدلانہ عمل مذاکرات میں ہماری پوزیشن کو مستحکم کرے گا اور بات چیت کرنے والی فریقین کو لازمی طور پر بات کرنا ہوگی۔‘
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے سوموار کو اس واقعے کا الزام اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے تنبیہ کی کہ ایران اس حملے کا انتقام لے گا۔
اسرائیل نے اب تک اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن اسرائیلی میڈیا نے یکساں موقف اپناتے ہوئے اس واقعے کو اسرائیلی سائبر حملے کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
تاہم اسرائیل کے ایک سرکاری ریڈیو چینل ’کان‘ نے انٹیلی جنس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ خفیہ ایجنسی موساد نے ایران کی نطنزجوہری تنصیب پر سائبرحملہ کیا ہے۔
سعودی نشریاتی ادارے ’العریبیہ ڈاٹ نیٹ‘ کے مطابق ’کان ریڈیو‘ نے اتوار کو بے نامی ذرائع کے حوالے سے یہ اطلاع دی کہ ’نطنز پر اسرائیل نے سائبر حملہ کیا ہے اور اس میں اس کی خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ ہے۔ ایران کی اس جوہری تنصیب پر تہران کی فراہم کردہ اطلاع سے کہیں زیادہ نقصان ہوا ہے۔‘
اس سے قبل اس حملے کے بارے میں بتاتے ہوئے ایران کے جوہری توانائی کے ادارے کے ترجمان بہروز کمال آفندی نے سرکاری میڈیا کو بتایا تھا کہ نطنز میں ایک ’واقعہ‘ پیش آیا ہے اور اس کے نتیجے میں اس تمام تنصیب میں بجلی منقطع ہو گئی ہے۔
ایران کے جوہری توانائی کے ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے اس واقعہ کو ’جوہری دہشت گردی‘ قرار دیا۔ تاہم انہوں نے سرکاری ٹی وی سے نشر ہونے والے بیان میں یہ نہیں بتایا کہ نطنز کی جوہری تنصیب میں کیا واقعہ رونما ہوا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک بیان میں علی اکبر صالحی نے اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک ’لاحاصل‘ عمل قرار دیا۔
انہوں نے بین الااقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ’اس اینٹی نیوکلیئر دہشت گردی‘ کو روکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کسی ملک کا نام لیے بغیر اس واقعے کا الزام ’ایران کی سیاسی اور صنعتی ترقی کے مخالفین‘ پر عائد کیا ’جن کا مقصد ایران کی ترقی کرتی جوہری صنعت کو روکنا ہے۔‘
ایرانی پارلیمان کے توانائی کمشن کے ترجمان مالک شریعتی نے اس حوالے سے ٹوئٹر پر لکھا: ’قومی نیوکلیئر ٹیکنالوجی دن پر ہونے والا یہ واقعہ ایسے موقعے پر ہوا جب ایران مغرب سے پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ یہ تخریب کاری اور دخل اندازی کی ایک کوشش ہے۔‘
دوسری جانب اتوار کو اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ’ایران، اس کی مسلح ہونے کی کوششوں اور اس کے حمایت یافتہ گروپوں کے خلاف اسرائیل کی کوششیں ایک بہت بڑا مقصد ہیں۔ آج جو صورت حال ہے ضروری نہیں کل بھی وہی برقرار رہے۔‘
نتن یاہو نے یہ بیان ایک ایسی تقریب میں دیا ہے جس میں انٹیلی جنس سروس موساد اور اسرائیلی فوج کی قیادت موجود تھی۔
نطنز میں واقع ایران کی جوہری تنصیب کو ماضی میں بھی اس طرح کے تخریبی حملوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
2010 میں اس کے کمپیوٹر نیٹ ورک پر سٹکس نیٹ وائرس کے ذریعے حملہ کیا گیا تھا۔ اس کمپیوٹر وائرس کے بارے میں یہ مانا جاتا ہے کہ یہ امریکہ اور اسرائیل نے مشترکہ طور پر تیار کیا تھا۔ اس سے نطنز کے سینٹری فیوجزکمپیوٹر نظام کو تباہ کردیا گیا تھا۔ اس حملے کا مقصد ایران کو مبینہ طور پر جوہری بم کی جلد تیاری سے روکنا تھا۔
نطنز ہی میں گذشتہ سال جولائی میں ایڈوانس سینٹری فیوج اسمبلی پلانٹ میں ایک پُراسرار دھماکہ ہوا تھا۔ ایرانی حکام نے بعد میں اس حملے کو تخریب کاری قرار دیا تھا۔
ایران اب نطنز کے نزدیک واقع ایک پہاڑی میں اس جوہری تنصیب کو دوبارہ تعمیر کررہا ہے۔
تب اسرائیل ہی پر اس سائبرحملے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور اسی کو ایرانی تنصیبات پر دوسرے حملوں کا مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔