امریکہ نے کرونا (کورونا) وائرس کے لیے تیار کی جانے والی ویکسینز کے پیٹنٹ ختم کرنے کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے بدھ کو اعلان کیا کہ وہ دنیا بھر کے لیے ان ویکسینز کے پیٹنٹ حقوق کے خاتمے کی حمایت کرتی ہے، جس سے غریب ممالک کو امید ملی ہے جو اب تک ان ویکسینز تک رسائی کے منتظر ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بھارت جہاں حالیہ ہفتوں میں کرونا کیسز اور ہلاکتوں میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او ) کے اندر اس مہم کی سربراہی کر رہا تھا تاکہ مزید دوا ساز کمپنیوں کو ویکسین بنانے کی اجازت دی جا سکے۔
تنظیم میں امریکی نمائندہ کیتھرین تائی کا کہنا تھا کہ انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس اہم ہیں لیکن واشنگٹن ’کووڈ 19 کی ویکسینز کے پیٹنٹ کے خاتمے کی حمایت کرتا ہے‘ تاکہ اس وبا کو ختم کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا: ’یہ ایک عالمی بحران ہے اور کووڈ 19 کے غیر معمولی حالات غیر معمولی اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔‘
صدر بائیڈن کو اس حوالے سے شدید دباؤ کا سامنا تھا اور یہ تنقید کی جا رہی تھی کہ امیر ممالک ان ویکسینز کو ذخیرہ کر رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم گیبریسیس نے اس امریکی فیصلے کو ’تاریخی‘ اور ’کووڈ 19 کی وبا کے خلاف فیصلہ کن لمحہ‘ قرار دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم کیتھرین تائی کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کیے جانے والے مذاکرات میں وقت لگے گا تاکہ اس پر ڈبلیو ایچ او میں اتفاق رائے کیا جا سکے۔
ان کے مطابق امریکیوں کے لیے ویکسین کی مطلوبہ رسد کے موجود ہونے پر بائیڈن انتظامیہ ان کوششوں کو جاری رکھے گی جن کے تحت ’ویکسین تیار اور تقسیم کرنے میں توسیع لائی جا سکے‘ جبکہ اس حوالے سے ’ویکسین کی تیاری کے لیے درکار خام مال کی فراہمی بھی بڑھائی جائے گی۔‘
کئی مہینوں سے ڈبلیو ایچ او سے کووڈ 19 کی ویکسینز کے انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس عارضی طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا لیکن بڑی فارما سیوٹیکل کمپنیوں اور ان کے میزبان ممالک ان مطالبات کی شدید مخالفت کر رہے تھے۔
جینیوا کی بین الااقوامی فارما سیوٹیکل مینوفیکچررز فیڈریشن اور اسوسی ایشن لابی نے امریکی فیصلے کو ’مایوس کن‘ قرار دیا ہے۔ فیڈریشن کے مطابق ’پیٹنٹ ختم کرنا ایک پیچیدہ مشکل کا آسان لیکن غلط حل ہے۔‘
نیوزی لینڈ نے اس امریکی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ آسٹریلوی وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے اسے ’بہترین خبر‘ قرار دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے سے ان کے ملک کو مقامی طور پر ویکسین تیار کرنے میں مدد ملے گی۔ جبکہ فرانس نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غریب ممالک کو ویکسین کی کمی پوری کرنے کے لیے عطیات کے طریقہ کار کو ترجیح دیتا ہے۔
ایک جانب جب امریکہ میں ویکسین لگوانے کے بدلے ڈونٹس اور بیر کی پیش کش کی جا رہی ہے دوسری جانب بھارت میں ایک دن کے دوران مزید 3780 ہلاکتیں سامنے آئی ہیں جبکہ بھارت کو ویکسینز کی کمی کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ بھارت میں بدھ کو مزید تین لاکھ 80 ہزار کرونا کیسز کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔
بھارتی حکومت کے پرنسپل سائنٹنفک مشیر کے وجے راگھون کا کہنا ہے کہ بھارت کو کرونا کی موجودہ لہر کو شکست دینے کے بعد ایک نئی لہر کا سامنا کرنے کی تیاری کرنی چاہیے۔ اب تک بھارت میں کرونا کیسز کی تعداد دو کروڑ سے زائد ہو چکی ہے۔
لندن میں سات امیر ممالک کے گروپ جی سیون نے ویکسین کی تقسیم کرنے کے پروگرام کوویکس کی مالی امداد کا وعدہ کیا ہے لیکن تازہ فنڈنگ کے حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا۔
جبکہ ڈینمارک جہاں کرونا وائرس پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے میں جمعرات سے سنیماز اور تھیٹرز، جم اور فٹنس سینٹرز کھول دیے جائیں گے۔ جبکہ بارز، کیفیز اور ریستورانٹس پہلے ہی کھولے جا چکے ہیں لیکن یہاں آنے والے افراد کو ’کرونا پاس‘ سرٹیفیکیٹ پیش کرنا لازم ہو گا، جس میں گذشتہ تین دن کے دوران ان کی کرونا نیگیٹو کی رپورٹ، مکمل ویکسینیشن یا کرونا سے صحت یابی کی تصدیق ہونا ضروری ہے۔