وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے آج نیویارک میں فلسطین پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی (ہنگامی) اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قوموں کی زندگی میں ایسے مرحلے آتے ہیں جب ان کے فیصلے آنے والی نسلیں یاد رکھتی ہیں۔
’آج ایک ایسا ہی موقع اور مرحلہ ہمیں درپیش ہے۔ آج ہم جوکرتے ہیں یا نہیں کرتے، سب تاریخ میں لکھا جائے گا۔‘
’اسرائیل اپنے غرور اور تکبراور قانونی کارروائی سے استثنی کی بنا پر فلسطین کے محصور اور مقید لوگوں پر لامتناہی حملوں کا سلسلہ شروع کیے ہوئے ہے۔ آج اس وقت جب ہم یہاں اظہار خیال کررہے ہیں، فلسطین میں بچوں اور خواتین کو ہلاک کیاجارہا ہے اور اس کی وجہ بننے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملوں میں ایک ہفتے کے دوران 250 سے زائد فلسطینی شہید جبکہ ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ غزہ کے ہر گھر میں اس وقت صف ماتم بچھی ہے اور ہر طرف موت کا سایہ ہے۔ اسرائیلی فضائی حملے ابوحاطب کے خاندان کے ہر فرد کی موت کے ذمہ دارہیں۔ اس خاندان کے ہلاک شدگان میں دو خواتین اور آٹھ بچے شامل ہیں۔
انہوں نے کہا ایک لمحے کے لئے اس صورتحال کاتصور کیجئے۔غزہ اور فلسطین کے دیگر علاقوں میں ہر گھنٹے میں ایسے بہیمانہ سانحات رونما ہورہے ہیں اور ایسے ہزاروں واقعات ہوچکے ہیں۔ اب تک 10 ہزار فلسطینی غزہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ پینے کے پانی، خوراک، حفظان صحت اور صحت کی سہولیات تک انہیں محدود نوعیت کی رسائی میسر ہے۔ ہسپتال اور فراہمی آب کے علاوہ نکاسی کی خدمات کا تمام تر انحصار بجلی کی فراہمی پر ہے اور اس ضمن میں ایندھن تقریبا ختم ہوچکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ ہر لحاظ سے اس وقت اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے ۔ واحد روشنی ان دھماکوں سے ہورہی ہے جو اسرائیل ان پربموں کی صورت برسارہا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا ’یہ ہے فلسطین جہاں اسرائیل پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے بے گناہ فلسطینیوں کو ہلاک، دہشت زدہ اور میڈیا کی زبان بندی کرنے کے لئے فضائی حملوں میں عمارات کو زمین بوس کررہا ہے۔ اس ظلم سے اب جان چھڑانے کا وقت آگیا ہے۔ فلسطینی عوام کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا اور نہ ہی انہیں خاموش کرایا جاسکتا ہے۔ ہم اسلامی دنیا کے نمائندے یہاں ان کے حق کی بات کرنے آئے ہیں، آج ہم ان کے لیے بول رہے ہیں۔‘
’یہ خوفناک امر ہے کہ سلامتی کونسل عالمی امن وسلامتی کے قیام کی اپنی بنیادی ذمہ داری انجام دینے کے قابل نہیں۔ سلامتی کونسل جنگ بند کرنے کا مطالبہ کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ کونسل کو اس کے کام سے روکنے والوں پر بھاری ذمہ د اری عائد ہوتی ہے۔‘
’ان حالات میں جنرل اسمبلی کو اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔ اس نازک مرحلے پر ہمیں فلسطینی عوام کو مایوس نہیں کرنا۔‘
انہوں نے کہا کہ ہماری پہلی ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ اسرائیل اپنی جارحیت روکے۔ مجھے امید ہے کہ اس اہم گھڑی سلامتی کونسل اسرائیل کواپنے حملے روکنے کے لئے کہے گی۔ اگر سلامتی کونسل یہ کام نہیں کرتی تو جنرل اسمبلی کو پوری عالمی برادری کی جانب سے یہ مطالبہ کرنا چاہئے۔ ہمیں واضح پیغام دینا ہے۔ محصور اور مقید فلسطینیوں کا اسرائیلی جنگی مشین کے مقابلے میں کوئی اخلاقی یا فوجی مقابلہ یا موازنہ نہیں۔ دونوں میں کوئی برابری نہیں۔ فلسطین کے پاس نہ کوئی بری فوج ہے، نہ بحریہ ہے اور نہ ہی کوئی فضائیہ ہے۔ دوسری جانب اسرائیل ہے جو دنیا کی طاقور ترین فوجی قوت کا حامل ہے۔ یہ جنگ قابض فوج اورمقبوضہ عوام کے درمیان ہے۔ یہ غیرقانونی قبضے اور استصواب رائے کی جائز جدوجہد کے درمیان لڑائی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس تناظر میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نومبر 1970 میں جنرل اسمبلی کی قرارداد 2649 میں اسی ایوان نے ’نوآبادیاتی اور غیرملکی جبروتسلط میں رہنے والے عوام کے استصواب رائے کے حق اور اس کی بحالی کی جدوجہد میں ہر دستیاب ذریعہ بروئے کار لانے کے جائزہونے کو تسلیم کیا‘اور اس کی تائید کی ہے۔
ہمیں ہرممکنہ طورپر تمام انسانی امداد غزہ اور دیگر مقبوضہ علاقوں کی تباہ حال فلسطینی آبادی کے لئے فوری روانہ کرنی چاہئے۔
مزید برآں جنرل سیکریٹری ’یو۔این۔آر۔ڈبلیو۔اے‘ ہنگامی امداد کی اپیل کریں تاکہ فلسطینیوں کے لئے خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کی فراہمی ممکن ہوسکے۔ غزہ اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں طبی ٹیموں، ادویات اور دیگر سامان بھجوانے کی ضرورت ہے۔ ہم غزہ تک راستے کی فراہمی کے مصر کے اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ اسرائیل غزہ کے تمام راستے کھولے تاکہ عالمی امداد کی فوری اور بروقت فراہمی ممکن ہوسکے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ جنرل اسمبلی کو فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں، ہمیں ایک عالمی محافظ فوج تعینات کرنی چاہیے جیساکہ جنرل اسمبلی کی قرارداد ’ای۔ایس۔10 / 20 اور 18 مئی 2018 کو اسلامی سربراہی کانفرنس نے مطالبہ کیا تھا۔
شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ اگر سلامتی کونسل محافظ فوج بھجوانے سے اتفاق نہیں کرتی تو اس تجویز سے اتفاق کرنے والوں کا اتحاد قائم کیاجاسکتا ہے جو کم ازکم حملوں اور کارروائیوں کی سویلین مبصرین کے ذریعے نگرانی کرے اور فلسطینیوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کی سرپرستی کرے۔